اقتباسات فرقان کے پسندیدہ اقتباسات

فرقان احمد

محفلین
وہ گنگنانے لگے۔
ذرا توقف کے بعد وہ دوسری تصویر کی طرف مڑے۔ فرمایا،
"یہ تمہاری عقل کو کچھ لگے گی۔"
میں نے دیکھا کچھ سیاہ و سفید لکیریں گڈمڈ ہوتی پھیل کر سمٹ گئی ہیں۔ مدعائے فن کار سمجھے کی کوشش کی تو خرد گھاس چرنے لگی۔ میں نے منہ اٹھا کر عرض کیا۔
"حضرت! یہاں تو کچھ بھی نہیں ہے"۔
وہ بہت خوش ہوئے اور ایک زوردار قہقہہ ٹھونک مارا۔ ہنسی کی ہلکی پھوار کے ساتھ صورتِ حال کی جانب رجوع ہوئے۔
"یہاں ایک عورت ہے جو پتے چن رہی ہے"۔
"لیکن عورت کہاں ہے"
"ارے بھائی! چنتے چنتے ذرا دُور چلی گئی ہے یعنی کہ فی الحال نظروں سے اوجھل ہے"۔
"تو پتے کہاں ہیں؟"
"خشک سالی میں پتے کہاں ہوتے ہیں؟ اسی تلاش میں وہ ذرا دور نکل گئی ہے ۔۔۔"

"تجریدی آرٹ" از پروفیسر سید نثار مصطفی
 

فرقان احمد

محفلین
میں اکثر خواب میں دیکھتا کہ حضرت غالب اپنا دیوان بغل میں دبائے بے تحاشا چیختے ہوئے بھاگ رہے ہیں، "بچاؤ! بچاؤ! مجھے میرے شارحین اور ماہرین سے بچاؤ"۔ اور ان کے پیچھے شارحین، ماہرین اور پرستاروں کا ایک غولِ بیابانی ان کا تعاقب کر رہا ہے جس میں قیادت ایک ڈنڈا لیے میرے محلے کے ماہرِ غالبیات کر رہے ہیں اور اپنے ساتھ مجھے بھی ایک زنجیر میں باندھے گھسیٹ رہے ہیں۔
کئی دفعہ تکلف برطرف کر کے ان کی منت سماجت کی، ہاتھ جوڑے، ڈاڑھی میں ہاتھ دیا، کان پکڑ کر اٹھا بیٹھا اور حرف مطلب یوں زبان پر لایا کہ اے ماہر غالبیات آپ کو آپ کے حضرت غالب مبارک! مجھ مغلوب میرے ہی حال پر چھوڑ دیجیے تو آپ کی غالبیت میں کون سا بٹہ لگ جائے گا؟
لیکن ماہرِ غالبیات بھلا کب ماننے والے تھے؟ میرے اظہارِ بے چارگی سے ان کی ہمہ دانی میں اور بھی چار چاند لگ جاتے اور فخر و تمکنت سے ان کے گلے کی رگیں پہلے سے بھی زیادہ پھولنے لگتیں، "ہو گا کوئی ایسا بھی جو غالب کو نہ جانے؟ دے اور دل ان کو جو نہ دے مجھ کو زباں اور! آپ غالب کو غلط سمجھے ہیں! اے دریغا وہ رندِ شاہد باز!!" اور یہ فرمانے کے بعد ۔۔۔۔۔۔ وہ غالب کے متعلق اپنی تحقیق اور دریافت کی گولہ باری مجھ پر کچھ اور تیز کر دیتے۔ مجھے کبھی اگر اونگھتا یا حواس باختہ دیکھتے تو چوکنا کرنے کے لیے مجھ پر دو چار انتہائی زلزلہ خیز سوالات داغ دیتے، "غالب کے نظریہء فلکیات کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے اور اس کے ماتحت 'مہ نخشب' کے ساتھ 'دستِ قضا' نے کیا برتاؤ کیا تھا"۔

'شریکِ غالب' از وجاہت علی سندیلوی
 

فرقان احمد

محفلین
یہ دستور ہے کہ کتاب خواہ کہیں بھی لکھی گئی ہو، مصنف اگر ایک مرتبہ بھی ولایت گیا ہے تو دیباچہ ضرور لندن کا لکھا ہوا ہو گا۔ ان دنوں میں لندن میں ہوں، اس لیے مجبور ہوں کہ اس روایت کو قائم رکھوں۔
ویسے کوئی خاص بات کہنا نہیں چاہتا سوائے اس کے کہ یہ دیباچہ ہے جسے میں نے لندن میں لکھا ہے۔

شفیق الرحمٰن
16- ہال روڈ، لندن

دیباچہ 'مزید حماقتیں'
 

فرقان احمد

محفلین
شعر:
واں اس کو ہولِ دل ہے تو یاں میں ہوں شرمسار
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی یہ میری آہ کی تاثیر سے نہ ہو
تشریح:
مرزا صاحب کا سابقہ ایک ایسے محبوب سے پڑا تھا جو منجملہ دیگر امراض کے اختلاج میں بھی مبتلا تھا۔ مرزا صاحب محبوب کے فراق میں کچھ اس درجہ نالہ و فریاد کے عادی تھے کہ وہ انہیں روکنے پر بھی قادر نہ تھے اور محبوب کو حکیموں نے مکمل آرام کا مشورہ دیا تھا۔ اب مرزا صاحب کو سخت پریشانی لاحق ہے کہ وہ کیا کریں کیونکہ ادھر ان کو نالوں کے روکنے پر قدرت نہ تھی اور ادھر ان کے شور و غل اور نالہ و فریاد سے محبوب کے اختلاج قلب کی ساری ذمہ داری ان کے نالہ و فریاد پر عائد ہوتی ہے اور بہت ممکن ہے کہ مرزا صاحب کے نالہ و فریاد ہی کے سبب محبوب اختلاجِ قلب کے مرض میں مبتلا ہو گیا ہو۔

اقتباس از 'مزاحیہ شرح دیوانِ غالب' (فرقت کاکوری)
 
آخری تدوین:

الف نظامی

لائبریرین
یہ دستور ہے کہ کتاب خواہ کہیں بھی لکھی گئی ہو، مصنف اگر ایک مرتبہ بھی ولایت گیا ہے تو دیباچہ ضرور لندن کا لکھا ہوا ہو گا۔ ان دنوں میں لندن میں ہوں، اس لیے مجبور ہوں کہ اس روایت کو قائم رکھوں۔
ویسے کوئی خاص بات کہنا نہیں چاہتا سوائے اس کے کہ یہ دیباچہ ہے جسے میں نے لندن میں لکھا ہے۔

شفیق الرحمٰن
16- ہال روڈ، لندن

دیباچہ 'مزید حماقتیں'
اس کتاب کے لکھنے پر میں کسی معافی کا خواستگار نہیں۔ میں اس کے متعلق نہ کوئی عذر پیش کرنا چاہتا ہوں اور نہ جھوٹ بولنا چاہتا ہوں۔ انگریزی زبان میں منطق پر بے شمار کتابیں ہیں۔ شائد اردو میں بھی ایک آدھ ہو۔ اگرچہ اس کتاب کی تصنیف کسی فخر کا مقام نہیں تاہم یہ کوئی ایسی کسرِ نفسی کی بات بھی نہیں۔ ایف اے کے طلبہ کی ضروریات کے لیے یہ کتاب کافی ہے۔ اس سے زیادہ مجھے کچھ کہنے کی نہ خواہش ہے نہ حاجت۔
کرامت حسین
گورنمنٹ کالج
لاہور
دیباچہ ، منطقِ استخراجیہ
 
Top