فرشتے کا دشمن : دوسرا صفحہ 102-103

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

سیدہ شگفتہ

لائبریرین


96yvyh.jpg




 

شکاری

محفلین
ادا کرنے تھے۔!
گروپ کی انسڑ کٹر ایک خاصی دل کش عورت تھی۔ عمر پچیس اور تیس کے درمیان رہی ہوگی۔ گداز جسم اور نشیلی آنکھوں والی تھی۔!
پتہ نہیں کیوں اس پر نظر پڑتے ہی میاں صاحب کو چاہ بابل کے فرشتے یاد آگئے تھے۔ حالانکہ اس کا نام زہرہ نہیں تھا۔ فرحانہ جاوید کہلاتی تھی۔
وہ کچھ بھی رہی ہو لیکن کیا ضروری تھا کہ میاں صاحب کی ذات میں شدت سے دل چسپی بھی لینے لگتی۔ میاں صاحب جب بھی اس کی طرف متوجہ ہوتے۔ اسے اپنی ہی جانب نگران پاتے اور پھر دیکھنے کا انداز ایسا ہوتا جیسے ہوجان سے ان پر فدا ہوجائے گی۔!
میاں صاحب نے کئی سال یو- کے اور یورپ کے دوسرے ممالک میں گزارے تھے۔ عورت ان کے لئے کوئی عجوبہ نہیں تھی۔ ہر چند کہ محتاط زندگی بسر کرتے رہے تھے۔ لیکن بہرحال مختلف قسم کی خواتین میں اٹھنا بیٹھنا بھی رہا تھا۔۔۔۔ لیکن یہ عورت ۔۔۔۔! نہ جانے کیوں ان کے حواس پر چھائی جارہی تھی۔
میاں صاحب نے اس گروپ کے قیام کا انتظام حویلی میں کیا تھا۔ لیکن ان کے ساتھ خود بھی وہیں منتقل نہیں ہوگئے تھے۔ مہمانوں کو اس پر حیرت تھی کہ میاں صاحب اتنی شاندار اور آرام داہ حویلی کو خیر باد کہہ کر ایک معمولی سے مکان میں کیوں جابسے ہیں۔
ٕ“مجھے عام آدمیوں کی طرح‌ زندگی بسر کرنا پسند ہے۔!“ انہوں نے فرحانہ جاوید کے استفسار کے جواب میں کہا تھا۔
“آپ حیرت انگیز ہیں جناب۔!“
“نہیں ایسی کوئی بات نہیں ہے۔!“ میاں صاحب شرما کر بولے تھے اور وہ قربان ہوجانے والے انداز میں ان کی طرف دیکھتی رہی۔
فیلڈ ورک کے دوران میں اس گروپ نے خصوصیت سے میاں صاحب کے بارے میں معلومات حاصل کی تھیں۔ اور نہ جانے کیوں فرحانہ جاوید نے فیلڈ ورک کی مدت ایک ہفتہ سے بڑھا کر دس یوم کردی تھی۔
فرحانہ جاوید سوشیالوجی کی لیکچرار تھی اور سب اس کی طالبات تھیں۔ لہذا اس کو پروگرام


میں ردوبدل کرنے کا اختیار حاصل تھا۔ اس نے پروگرام میں اس تبدیلی کی اطلاع دی تو وہ غیر شعوری طور پر کھل اٹھے۔
“مجھے خوشی ہے کہ آپ کی میزبانی کا شرف کچھ دن اور حاصل رہے گا۔!“ انہوں نے کہا۔
“میں تو سوچ رہی تھی کہ خواہ مخواہ ہم لوگ آپ پر بار بنے ہوئے ہیں۔“
“ہر گز نہیں۔ ہرگز نہیں۔ یہ کہہ کر آپ مجھے تکلیف پہنچارہی ہیں۔!“
“آپ واقعی عظیم ہیں۔!“
“ارے نہیں اس عظیم کائنات کا ایک حقیر ترین ذرہ۔!“
“مکمل ترین انسان۔!“ فرحانہ ان کی آنکھوں میں دیکھتی ہوئی مسکرائی اور میاں صاحب کے دل میں عجیب قسم کی گُدگُدی سی ہونے لگی۔!
وہ رات انھیں آنکھوں میں کاٹنی پڑی تھی۔ پتا نہیں کیسی خلش تھی۔بار بار سوچتے تھے کہ بالآخر ایک دن وہ چلی جائے گی؟ پھر کیا ہوگا؟ آخر وہ ایسی باتیں کیوں سوچ رہے ہیں۔!
دوسری صبح پھر ایک اچھنبا سامنے کھڑاتھا۔ ریلوے اسٹیشن کا خصوصی ہرکارہ ان کے لئے ایک ٹیلی گرافک پیغام لایا تھا جو کسی مس جولیانافٹنر واٹر کی طرف سے تھا۔ جولیانافٹنر واٹر نے انہیں اطلاع دی تھی کہ وہ پانچ بجے والی ٹرین سے جھریام ریلوے اسٹیشن پر پہنچ رہی ہے۔ اس کی رہنمائی کے لیے کسی کو بھیجا جائے۔
پہلے تو میاں صاحب یہی سمجھے تھے کہ وہ بھی اس گروپ سے تعلق رکھنے والی لڑکی ہوگی۔ جو اُس وقت اس گروپ میں شامل نہ ہوسکنے کی بنا پر پیچھے رہ گئی تھی۔ لیکن جب فرحانہ جاوید نے اس کی طرف سے لاعلمی کا اظہار کیا تو ان کی تشویش بڑھ گئی۔ آخر یہ کون ہے! جولیانا فٹنر واٹر۔۔۔۔؟ یاداشت پر زور دینے لگے۔ لیکن یہ نام یاد نہ آسکا۔
وہ ساری خواتین ایک ایک کرکے یاد آئین جس سے یوکے یا دوسرے ممالک میں ملاقات ہوئی تھی۔ لیکن جولیانافٹنر واٹر؟۔۔۔۔اس کا نام کی تو کوئی بھی نہیں تھی۔ یاپھر رہی ہو۔! اور وہ صرف صورت آشنا ہوں۔ نام یاد نہ رہا ہو۔ شکل دیکھتے ہی یاد آجائے۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ لوگوں کے نام ذہنوں سے نکل جاتے ہیں۔ لیکن اچانک کہیں ملاقات ہوجانے پر سب کچھ یاد آجاتا ہے۔!
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top