ضمیر جعفری فرد ہو یا ملک تنہائی کا یارا بھی نہیں

سیما علی

لائبریرین
فرد ہو یا ملک تنہائی کا یارا بھی نہیں
بھائی چارے کے بہ جز کچھ اور چارہ بھی نہیں

ہم نے یہ مانا اکیلے میں گزارا بھی نہیں
بات ہو جائے کسی سے یہ گوارا بھی نہیں

ہم عجب آزاد ہیں ہم کس قدر آزاد ہیں
ہم زمانے سے بہ انداز دگر آزاد ہیں

آج کل دنیا سمٹ کر ایک کاخ و کو میں ہے
ایک قدم لاہور میں ایک ٹمبکٹو میں ہے

بم شکاگو میں دھمک سارے ہنو لولو میں ہے
لالہ مصری خان لیکن اپنی ہاو ہو میں ہے

وہ یہ کہتا ہے کہ ہم مردان نر آزاد ہیں
ہم زمانے سے بہ انداز دگر آزاد ہیں

آئیے اب گھر میں آزادی کا منظر دیکھیے
جز بہ جز بکھرا ہوا دفتر کا دفتر دیکھیے

اپنی صورت اپنے آئینے کے اندر دیکھیے
شرم آئے گی مگر جانِ برادر دیکھیے

ہم تو آزادی سے بھی کچھ بیش تر آزاد ہیں
ہم زمانے سے بہ انداز دگر آزاد ہیں

خواب آزادی کی یہ تعبیر سمجھے ہیں ضمیر
یار ماری چور بازی سمگلنگ، دار و گیر

گھات میں بیٹھا ہوا ہے کیا پیادہ کیا وزیر
اپنا اپنا کوہکن ہے اپنی اپنی جوئے شیر

بے نیاز امتیاز خیرو شر آزاد ہیں
ہم زمانے سے بہ انداز دگر آزاد ہیں

ضمیر جعفری
از ضمیریات
 
Top