فارسی گو شاعر ادیب پشاوری کا تعارف

حسان خان

لائبریرین
ادیب پشاوری کا اصل نام سید احمد بن شہاب الدین رضوی تھا۔ وہ موجودہ خیبر پختونخوا کے شہر پشاور کے نزدیک سن ۱۸۴۴ء میں پیدا ہوئے اور اُن کے مطابق وہ مشہور صوفی بزرگ شہاب الدین عمر سہروردی (متوفی ۱۲۳۴ء) کی نسل میں سے تھے۔نوجوانی کے دوران ان کے والد اور متعدد رشتے دار برطانویوں اور افغان قبائل کے مابین ہونے والی سرحدی جھڑپوں میں مارے گئے۔نتیجتاً، ادیب پہلے کابل اور پھر غزنی منتقل ہوئے جہاں اُنہوں نے ابتدائی تعلیم مکمل کی۔ ۱۸۷۷ء میں وہ ایران ہجرت کر گئے جہاں انہوں نے سبزوار میں واقع حاجی ملا ہادی سبزواری کے مدرسے میں شمولیت اختیار کی، اور وہاں وہ فلسفے کے دروس میں حاضر ہوئے۔ بالآخر وہ تہران میں مقیم ہو گئے جہاں ۳۰ جون ۱۹۳۰ء کو وہ انتقال کر گئے۔
ادیب کی شاعرانہ تخلیق کم و بیش بیس ہزار اشعار پر مشتمل ہے۔ ان کی وفات کے تین سال بعد شائع ہونے والے انتخابِ کلام میں، جو زیادہ تر غزلوں اور قصیدوں پر مشتمل تھا، ۴۲۰۰ فارسی اور ۳۷۰ عربی اشعار شامل ہیں۔ انہوں نے قیصرنامہ کے نام سے ایک طویل مثنوی بھی لکھی۔ اسے المانیہ (جرمنی) کے بادشاہ قیصر ولہلم ثانی کے نام معنون کیا گیا ہے اور اس میں جنگِ عظیم اول میں المانیہ کے کردار کو سراہا گیا ہے۔اگرچہ ادیب کا تعلق شعراء کی پرانی نسل سے تھا، لیکن انہوں نے اپنی شاعری میں کچھ جوان ہم عصروں کی طرح نئے معاشرتی و سیاسی خیالات کا اظہار کیا۔ اس طرح انہوں نے فارسی شاعری میں وطن پرور رجحانات لانے میں پیش قدمی کی۔ ان کی ادبی اہمیت ایک پیش رَو کے طور پر ہے، کیونکہ ان کے شاعری میں ایسے رجحانات کا ابتدائی خاکہ نظر آتا ہے جو بعد میں ایران کے آئینی انقلاب کے دور میں نمایاں ہو گئے تھے۔
ادیب نے اپنی زندگی کے آخری سال خاقانی شروانی، ناصر خسرو، سنائی غزنوی اور مثنویِ معنوی کے مطالعے اور تحقیق میں صرف کیے تھے۔ انہوں نے وفات سے پہلے ارادہ کیا تھا کہ وہ ابنِ سینا کی فلسفیانہ کتاب 'اشارات و تنبیہات' کو فارسی میں منتقل کریں گے، لیکن زندگی نے کتاب کے اتمام تک وفا نہ کی۔

(مآخذ: انسائیکلوپیڈیا ایرانیکا اور فارسی ویکی پیڈیا)

ادیب پشاوری کا قصائد اور غزلیات پر مشتمل دیوان یہاں سے پڑھا جا سکتا ہے:
https://archive.org/details/DivanEQasaaidOGhazaliyat-AdeebPeshawari
 
Top