فارسی شاعری فارسی شاعری کے منظوم اردو ترجمے - حادث صلصال

حسان خان

لائبریرین
ایک مُحترم دوست «حادِث صلصال» نے گُوناگُوں فارسی ابیات کا اردو میں منظوم ترجمہ کرنے کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ وہ جن جن ابیات کا ترجمہ کرتے رہیں گے، اُن کی اجازت کے ساتھ، میں اُن منظوم ترجموں کو یہاں ارسال کرتا رہوں گا۔
 

حسان خان

لائبریرین
ای صبا نَکهَتی از خاکِ رهِ یار بِیار
بِبَر اندوهِ دل و مُژدهٔ دل‌دار بِیار

(حافظ شیرازی)
اے صبا! خاکِ راہِ یار سے ذرا سی خوشبو لے آؤ۔۔۔ غمِ دل لے جاؤ اور دِل دار کی خوش خبری لے آؤ۔
اے صبا بُوئے خوشِ خاکِ رہِ یار لے آ
غمِ دل لے جا، کوئی مُژدۂ دلدار لے آ
(حادث صلصال)
 

حسان خان

لائبریرین
می‌کند حافظ دُعایی بِشْنو آمینی بِگو
روزیِ ما باد لعلِ شکّرافشانِ شما

(حافظ شیرازی)
حافظ اِک دُعا کر رہا ہے، سُنو اور آمین کہو: آپ کا لعل جیسا لبِ شَکَر افشاں ہمارے نصیب میں آئے!
ہے محوِ دُعا حافظ آمین کہو سُن کر
وہ لعلِ لبِ شیریں، قسمت میں ہماری ہو
(حادث صلصال)
 

حسان خان

لائبریرین
جدا گردان ز تن جانش خدایا
مرا هر کس که از جانان جدا کرد

(شاه شُجاع دُرّانی)
اے خدا! جس بھی شخص نے مجھ کو جاناں سے جُدا کیا، تم اُس کی جان کو تن سے جُدا کر دو!
کیا جس نے مجھے مہجورِ جاناں
خدایا اُس کی جاں، تن سے جدا کر
(حادث صلصال)
 

حسان خان

لائبریرین
لب‌ریزِ مِهرِ ساقیِ کوثر بُوَد دلم
شُکرِ خدا که صافِ محبّت به جامِ ماست

(میرزا داراب جویا کشمیری)
میرا دل ساقیِ کوثر کی محبّت سے لبریز ہے۔۔۔ خدا کا شُکر کہ ہمارے جام میں محبّت کی بے غش شراب ہے۔
دل ساقیِ کوثر کی چاہت سے لبالب ہے
صد شُکر مَےِ بے غش ساغر میں ہمارے ہے

(حادث صلصال)
 

حسان خان

لائبریرین
بِرو طوافِ دلی کن که کعبهٔ مخفی‌ست
که آن خلیل بِنا کرد و این خدا خود ساخت
(منسوب به زیب النساء بیگم)


ترجمہ: جاؤ کسی دل کا طواف کرو کہ جو مخفی کعبہ ہے؛ کیونکہ اُس (مکّے کے کعبے) کی بنیاد تو حضرت ابراہیم خلیل اللہ نے ڈالی تھی لیکن اِس (دل کے کعبے) کو خدا نے خود بنایا ہے۔
طوافِ دل کرو جا کر کہیں، جو خُفیہ کعبہ ہے
کہ اُس کے بانی ابراہیم تھے، اِس کا خُدا خود ہے
(حادث صلصال)


× میری رائے ہے کہ زیب النساء بیگم سے منسوب فارسی دیوان اُس کا نہیں ہے، بلکہ کسی اور شاعر کا ہے، لہٰذا میری نظر میں مندرجۂ بالا فارسی بیت کا انتساب مشکوک ہے۔ تاہم، اِس سے بیت کی خوبی پر اثر نہیں پڑتا۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
شربتی تلخ‌تر از زهرِ فراقت باید
تا کند لذتِ وصلِ تو فراموش مرا

(سعدی شیرازی)
تیرے وصل کی لذت کو بھلانے کے لیے تیرے فراق سے بھی تلخ تر شربت چاہیے۔
لذّتِ وصل بُھلانے کو مجھے چاہیے ہے
کوئی امرِت جو ترے ہجر سے بھی کڑوا ہو

(حادث صلصال)
 

حسان خان

لائبریرین
نمی‌گردد به خاطر هیچ کس را فکرِ برگشتن
چه خاکِ دل‌نشین است این که صحرایِ عدم دارد

(صائب تبریزی)
صحرائے عدم کی جو یہ خاک ہے کیا ہی دلنشیں ہے، کہ کسی کے دل میں واپس لوٹ جانے کا خیال نہیں آتا۔
دشتِ عدم کی خاک بڑی دل نشین ہے
دل میں خیالِ واپسی آتا نہیں کبھی

(حادث صلصال)
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
اگر غم را چو آتش دُود بودی
جهان تاریک بودی جاودانه

(شهید بلخی)
اگر غم سے بھی آتش کی طرح دھواں نکلتا تو جہان ہمیشہ تاریک رہتا۔
یہ جہاں تاریک ہی رہتا مسلسل تا ابد
آگ جیسا گر نکلتا رنج و غم سے بھی دھواں

(حادث صلصال)
 

حسان خان

لائبریرین
مراست خانه بیابان و دل ز خون دریا
تو عشق بین که مرا میرِ بحر و بر دارد

(قاآنی شیرازی)
میرا گھر بیابان ہے، اور میرا دل خُون سے بحر [ہو گیا] ہے۔۔۔ تم عشق کو دیکھو کہ وہ مجھ کو میرِ بحر و بر رکھتا ہے۔
بیاباں گھر ہے میرا اور دل خوں ہو کے دریا ہے
فُسونِ عشق تو دیکھو امیرِ بحر و بر ہوں میں

(حادث صلصال)
 

حسان خان

لائبریرین
مَیِ دیرینه و معشوقِ جوان چیزی نیست
پیشِ صاحب‌نظران حور و جِنان چیزی نیست

(علّامه اقبال لاهوری)
صاحب نظر افراد کے پیش میں شرابِ کُہنہ، معشوقِ جواں، اور حُور و جِناں کوئی چیز نہیں ہے (ہِیچ ہے)۔
بادۂ کہنہ و محبوبِ جواں کچھ بھی نہیں
پیشِ اہلِ نظراں حور و جناں کچھ بھی نہیں

(حادث صلصال)
 

حسان خان

لائبریرین
هر کو شرابِ فرقت روزی چشیده باشد
داند که سخت باشد قطعِ امیدواران
(سعدی شیرازی)

ہر وہ شخص جو کسی روز شرابِ فرقت چکھ چکا ہو، وہ جانتا ہے کہ امیدواروں کی [باہمی] جدائی [بسیار] سخت ہوتی ہے۔
کسی روز جس نے چکّھی مَےِ فُرقتِ الم گِیں
وہ جفائے قطعِ باہم سے کثیر آشنا ہے

(حادث صلصال)
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
خَلق سرگردان همه از قحطِ آب و دانه‌اند
هر کِرا دیدیم غیر از آسیا در گردش است

(غنی کشمیری)
قحطِ آب و دانہ کے باعث تمام مردُم سرگرداں ہیں۔۔۔ ہم نے چکّی کے سوا جس کو بھی دیکھا وہ گردش میں ہے۔
(یعنی چکّی کو گھومنا چاہیے، لیکن وہ اِس زمانۂ قحط میں گھوم نہیں رہی، جبکہ اُس کی بجائے دیگر تمام مردُم تلاشِ آب و دانہ میں یہاں وہاں گُھوم رہے ہیں۔ گُھومنے کا جو کام چکّی کا تھا، وہ اب انسان کر رہے ہیں۔)
قحطِ آب و دانہ سے خلقتِ خدا گرداں
جُز بہ آسیا دیکھا کُل جہان گردش میں

(حادث صلصال)
 
Top