غم حسین علیہ السلام پر اشعار

سیما علی

لائبریرین
اے کربلا ہے تیری زمین رشکِ کیمیا
تانبے کو خاک سے ہم زر بنائیں گے
اعظمؔ تُو اپنے شوق کو بے فائدہ نہ جان
فردوس میں یہ شعر تیرا گھر بنائیں گے
تر لوک ناتھ اعظمؔ جلال آبادی
 

سیما علی

لائبریرین
میں کٹ مروں گا میں جان دے دوں گا حرفِ حق پر
کہ فخرہے مجھ کو میری نسبت حسین سے ہے
لفظوں کو حریت کے مفاہیم دے دیے
ارزاں ہوئی ہے خوںٍ کی گرانی حسین سے
میں با وضو جو کبھی نیند اوڑھ لیتا ہوں
تمام شب مری آنکھوں میں جاگتا ہے حسین
تشنہ لبی میں صبر و رضا ضبط و حوصلہ
کیا کیا لبِ فرات نہ سیکھا حسین سے
تاروں سے بڑھ کے روشنی ذرّوں میں ہے کمال
ہے دشتِ کربلا میں اجالا حسین سے
(محمد اشرف کمال)
 

سیما علی

لائبریرین
شاعر کسی خیال کا ہو یا کوئی ادیب
واعظ کسی دیار کا ہو یا کوئی خطیب
تاریخ بولتا ہے جہاں کوئی خوش نصیب
اس طرح بات کرتا ہے احساس کا نقیب
دیکھو تو سلسلہ ادب مشرقین کا
دنیا کی ہر زباں پہ قبضہ حسین کا
 

سیما علی

لائبریرین
نبی ﷺ کا تم نے کیا اونچا نام ہے زینب
خدا کا تم پہ درود و سلام ہے زینب

فضلتیں ہوئیں جس پر تمام ہے زینب
کہ عکسِ صولتِ شاہِ انام ہے زینب
صائب جعفری
 

سیما علی

لائبریرین
تھی پشتِ وقت بارِ الم سے چُھکی ہوئی
ارض و سما کی سانس تھی گویا رُکی ہوئی

فہرست میں ایک نام تھا جو سب سے جلی تھا
مُژدہ ہو کہ وہ نام حسین ؑ اِبنِ علیؑ تھا

جوش ملیح آبادی
 

سیما علی

لائبریرین
گر مدحتِ شبیر کا دفتر کھل جائے
اک مشرقِ نو سینے کے اندر کھل جائے

تصویر اگر کرب و بلا کی کھینچوں
اِک عرصہ قیامت کے برابر کھل جائے
 
میرے مولا میرے رہبر میری شان حسین
میرے آقا کے جھولی کے پھول حسین
لٹا دیا کنبہ دیں پر جس نے
حق کی وہ ہے داستان حسین
۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔

سلام یا حسین
 

سیما علی

لائبریرین
شبِ عاشور عبادت کے لئے جاگے تھے
رات بھر صبحِ شہادت کے لئے جاگے تھے

دی جو اکبر نے اذاں ہو گیا ثابت کہ حُسین ع
دین ِ کامل کی حفاظت کے لئے جاگے تھے

ظُلم کی نیند میں ڈوبے ہوئے لشکر میں فقط
ایک حُر تھے جو حمایت کے لئے جا گے تھے

وہ بَہتّر کہ جو اُس رات نہ سوئے پَل بھر
کِس قیامت میں قیامت کے لئے جاگے تھے

کس طرح عابدِ بیمار نے کھولی آنکھیں
کیسی غُربت میں امامت کے لئے جاگے تھے

کاش مِل جائے مجھے ان سے تعلّق کی سَند
کربلا میں جو رفاقت کے لئے جاگے تھے

ڈاکٹر فاطمہ حسن
 

سیما علی

لائبریرین
زندہ نشاں قبیلے کی پہچان کربلا
اک مصحف حیات ہے عنوان کربلا
۔
آزاد ہے یہ مذہب و مسلک کی قید سے
انسانیت کے واسطے برهان کربلا
۔
ظالم کو روکنا ، نہیں واجب قلیل پر
ایسی ہر اک دلیل سے انجان کربلا
۔
منصف ہو باضمیر تو مانے گا یہ ضرور
ہر عہد کی ہے مستند میزان کربلا
۔
دیں کا سفینہ ڈوبنے کا خوف اب نہیں
لاریب کہ ہے قامع طغیان کربلا
۔
میثم زبان ہونے کا باعث بھی کربلا
اور ہے مزاج بو ذر و سلمان کربلا
۔
قاسم کا بانکپن ، علی اکبر کا ہے شباب
اصغر کی ایک ہلکی سی مسکان کربلا
۔
اوراق مقاتل میں رقم ہے کہ سکینہ
تعمیر کر گئ پس زندان کربلا
۔
بے تیغ فتح زینب و سجاد نے کیا
کرتی رہے گی حشر تک اعلان کربلا

قرآن کربلا ، میرا ایمان کربلا
راہ نجات ، کلمہ یزدان کربلا
۔
حر( رض) جیسی حریت جسے ادراک میں ملی
اس کو بنا دے صاخب عرفان کربلا
۔
مانگو ارم خدا ہمیں حر (رض) سا نصیب دے
کر دے ہمیں بھی صاحب وجدان کربلا

ارم نقوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Top