غزل

بسی ہوئی ہے خلش ملگجے اجالوں میں
کٹے گی آج کی شب بھی ترے خیالوں میں
یہ زندگی بھی کوئی امتحان لگتی ہے
ہر ایک شخص ہے الجھا ہوا سوالوں میں
جو تیرے چہرے کو پڑھ کر نصیب ہوتا ہے
وہ لطف ہی نہیں ملتا مجھے رسالوں میں
کبھی جو ذکر چھڑے نامراد لوگوں کا
ہماری نام بھی لے لینا تم حوالوں میں
تمام لوگوں کی نظریں تمہی پہ
ٹھہریں گی
بس ایک پھول سجا لینا اپنے بالوں میں
خورشید بھارتی
اتر پردیس۔انڈیا
 
بسی ہوئی ہے خلش ملگجے اجالوں میں
کٹے گی آج کی شب بھی ترے خیالوں میں
یہ زندگی بھی کوئی امتحان لگتی ہے
ہر ایک شخص ہے الجھا ہوا سوالوں میں
جو تیرے چہرے کو پڑھ کر نصیب ہوتا ہے
وہ لطف ہی نہیں ملتا مجھے رسالوں میں
کبھی جو ذکر چھڑے نامراد لوگوں کا
ہماری نام بھی لے لینا تم حوالوں میں
تمام لوگوں کی نظریں تمہی پہ
ٹھہریں گی
بس ایک پھول سجا لینا اپنے بالوں میں
خورشید بھارتی
اتر پردیس۔انڈیا
اچھی غزل ہے ، خورشید صاحب . چوتھے شعر میں ’ہمارا‘ کی جگہ شاید غلطی سے ’ہماری‘ ٹائپ ہو گیا ہے .
 
Top