غزل

سحر کائنات

محفلین
رکھا ہوا ہے سامنے عرصہ سمیٹ کر
سانسوں نے میرے جسم کا ملبہ سمیٹ کر

جاؤں کدھر کو میں کوئی منزل نہیں رہی
جس دن سے لے گیا ہے وہ رستہ سمیٹ کر

لفظوں کا رزق پاس ہے میری زبان کے
لیکن وہ لے گیا میرا لہجہ سمیٹ کر

اس شخص کے حصار سے نکلا نہیں ہوں میں
آدھا رکھے ادھیڑ کے، آدھا سمیٹ کر

وہ ہے مرے خیال کی وسعت سے بدگمان
لایا ہوں اس کے سامنے سدرہ سمیٹ کر

کھینچی ہیں وقت نے جو طنابیں حیات کیں
میں چل پڑا ہوں زیست کا خیمہ سمیٹ کر

گھر میں مرا وجود مصور تھا جا بجا
دستک ہوئی تو آ گیا چہرہ سمیٹ کر

مصور عباس
 
Top