غزل

ابر نفرت کے بنے ہیں، حسد کا طوفان ہے ہر سو
ڈھا دے نہ کہیں ، الفت کو اس گرد کا بوجھ

بادشاہ ہوئے خاک یہاں، اور کئی تخت ہیں الٹے
سلطنت سہہ نہ سکی ان کی کسی مرد کا بوجھ
(مرد۔۔۔۔۔۔بہادر مسلمان)
رنج تو بیٹھے ہیں بہت،پر صبر کا نہیں ڈوبا سفینہ
ڈر ہے کہ نہ بڑھ جائے کہیں میرے درد کا بوجھ

لفظ پھولوں سے تھے ،ادائیں بادِ صبا کے جیسی
ہم پھر بھی اٹھا لائے،،،لہجہ ء سرد کا بوجھ

اس کی فرقت ، کے گلشن پہ ،بہار آئی ہے
بھسم ڈالے نہ کہیں وصل کےکسی برگ کابوجھ

اس کے واعظوں کی تو بہت بھاری ہے کتاب
جس کو لے ڈوبا میرے خط کے اک ورق کا بوجھ

سخت طوفاں میں بھی جھک جاتے ہیں کچھ پودے اکثر
کہیں ٹہنی کوئی سہہ نہ سکی کسی ورد کا بوجھ
(ورد۔۔۔۔۔۔گلاب کا پھول)
ادھر کے ہیں نہ اُدھر کے،ہم تو گداگر ٹھہرے
سہنا پڑتا ہے ہر سمت سے آتے ہوئے برد کا بوجھ
(برد۔۔۔۔۔۔۔۔اولا)
کوئی تعجب نہیں ہو اس سے ملاقات حشر میں
کاندھوں پہ لئے پھرتا ہو،مجھکو دیے درد کا بوجھ

(ام عبدالوھاب)
 
Top