غزل

سحر کائنات

محفلین
کناروں سے جدا ہوتا نہیں طغیانیوں کا دکھ
نئی موجوں میں رہتا ہے پرانے پانیوں کا دکھ

کہیں مدت ہوئی اس کو گنوایا تھا مگر اب تک
مری آنکھوں میں ہے ان بے سر و سامانیوں کا دکھ

تو کیا تو بھی مری اجڑی ہوئی بستی سے گزرا ہے
تو کیا تو نے بھی دیکھا ہے مری ویرانیوں کا دکھ

شکست غم کے لمحوں میں جو غم آلود ہو جائیں
زمیں ہاتھوں پہ لے لیتی ہے ان پیشانیوں کا دکھ

میان عکس و آئینہ ابھی کچھ گرد باقی ہے
ابھی پہچان میں آیا نہیں حیرانیوں کا دکھ

میں پہلے ڈھونڈھتا ہوں اک ذرا آسانیاں اور پھر
بڑی مشکل میں رکھتا ہے مجھے آسانیوں کا دکھ۔۔۔۔۔۔

اظہر نقوی
 
Top