غزل

ملا ہے ہم سفرِ کرہِ زمین مرا
بنایا کس نے جو ہے عکسِ دوربین مرا
عطاِبے رخیِ یار تیرا کیا کہنا
مرے خیال کی دنیا بنائی دین مرا
رہا ہوں قائلِ عزم و شجاعتِ درباں
رہے گا در پہ ترے کون سا یقین مرا
وہی سرنگ میں بھی زلفِ تر کا رنگ رہا
لعینِ صاحب ِ زنداں ہے کیا ذہین مرا
کفن خرید کے پیمانہ اک چھپارکھوں
کہیں وہ آبِ حیات اب بھی لے نہ چھین مرا

(برائے اصلاح)
 
اردو محفل میں خوش آمدید معظم بھائی۔
اچھی کاوش ہے۔ اشعار میں مگر ابلاغ کے کچھ مسائل ہیں، جو میرے ناقص ذہن نے سمجھا اس کے مطابق ایک تنقیدی جائزہ پیشِ خدمت ہے۔
رہا ہوں قائلِ عزم و شجاعتِ درباں
رہے گا در پہ ترے کون سا یقین مرا
یہاں "یقین مجھے" کا محل ہے۔ خیال اچھا ہے۔
ملا ہے ہم سفرِ کرہِ زمین مرا
بنایا کس نے جو ہے عکسِ دوربین مرا
یہاں شاید آپ دوربین کے بنائے گئے عکس کی جانب اشارہ کر رہے ہیں جو کہ اصل حقیقت سے مختلف ہوتا ہے۔ ہم سفر کو "ہم نفس" سے تبدیل کر کے دیکھیے۔
عطاِبے رخیِ یار تیرا کیا کہنا
مرے خیال کی دنیا بنائی دین مرا
یار کی بے رخی کی عطا بطور مخاطب کچھ عجیب معلوم ہوتی ہے۔
وہی سرنگ میں بھی زلفِ تر کا رنگ رہا
لعینِ صاحب ِ زنداں ہے کیا ذہین مرا
یہاں آپ اپنے fellow inmate کی تعریف کر رہے ہیں غالباً۔ مگر کچھ بات بن نہیں پائی۔ سرنگ اور زنداں معنوی اعتبار سے ایک دوسرے سے بہت دور ہیں۔ لعینِ صاحبِ زنداں تو بالکل بے معنیٰ ہے۔
کفن خرید کے پیمانہ اک چھپارکھوں
کہیں وہ آبِ حیات اب بھی لے نہ چھین مرا
کچھ غرابت کا احساس ہوتا ہے مگر قابلِ فہم ہے۔
 
اردو محفل میں خوش آمدید معظم بھائی۔
شکریہ

میں نے سوچا تھا کہ اسے دو طریقوں سے پڑھا جاسکتا ہے، دربان خود میرا یقین ہے یا دربان کے بہادر ہونے پر میرا یقین ہے اور "رہنا" بھی باقی بچنا یا در پر رہنا کے معنی میں ہو سکتا ہے۔ ویسے گرامر کی جو آپ نے غلطی بتائی ہے وہ آپ بہتر جانتے ہیں۔

یہاں آپ اپنے fellow inmate کی تعریف کر رہے ہیں غالباً۔ مگر کچھ بات بن نہیں پائی۔ سرنگ اور زنداں معنوی اعتبار سے ایک دوسرے سے بہت دور ہیں۔ لعینِ صاحبِ زنداں تو بالکل بے معنیٰ ہے۔

نہیں ، یہ بات بالکل نہیں ہے شاید میں بات سمجھا نہیں پایا۔ یہ ایک قیدی کے بارے میں ہے جو سرنگ کھود کر نکلنا چاہتا ہے مگر زمین کے اندر بھی سلاخیں موجود ہوتی ہیں سو وہ سر کو ٹکریں مار کر خون آلودہ کر دیتا ہے۔ ویسے لفظ سرنگ مجھے برا سا محسوس ہو رہا ہے، شاید یہ زیادہ اردو شاعری میں استعمال نہیں ہوا۔

(جہاں تک لعینِ صاحبِ زنداں کی بات ہے، میرا مقصد کسی طرح لعین اور ذہین کو صاحبِ زنداں کی صفات (adjectives)کے طور پر استعمال کرنا تھا لیکن پھر میرا زبان نہ جانناشاید آڑے آگیا۔ )
 
اور دور بین کے عکس کا مقصد یہ تھا کہ اگر بلندی سے دور بین نما کسی چیز سے دیکھا جائے تو ہر شخص میرے ہی عکس کی طرح ہے، یعنی فرق نہیں ہے۔
 
اور دور بین کے عکس کا مقصد یہ تھا کہ اگر بلندی سے دور بین نما کسی چیز سے دیکھا جائے تو ہر شخص میرے ہی عکس کی طرح ہے، یعنی فرق نہیں ہے۔
مجھ ایسے آدمی کے لیے تو یہ معنی اخذ کرنا کافی دشوار ہوگا۔
(جہاں تک لعینِ صاحبِ زنداں کی بات ہے، میرا مقصد کسی طرح لعین اور ذہین کو صاحبِ زنداں کی صفات (adjectives)کے طور پر استعمال کرنا تھا لیکن پھر میرا زبان نہ جانناشاید آڑے آگیا۔ )
لعین کے ساتھ کسرۂ اضافت غیر ضروری ہوگا اس صورت میں۔
لعین صاحبِ زنداں ہے کیا ذہین مرا
درست ہے۔
نہیں ، یہ بات بالکل نہیں ہے شاید میں بات سمجھا نہیں پایا۔ یہ ایک قیدی کے بارے میں ہے جو سرنگ کھود کر نکلنا چاہتا ہے مگر زمین کے اندر بھی سلاخیں موجود ہوتی ہیں سو وہ سر کو ٹکریں مار کر خون آلودہ کر دیتا ہے۔ ویسے لفظ سرنگ مجھے برا سا محسوس ہو رہا ہے، شاید یہ زیادہ اردو شاعری میں استعمال نہیں ہوا۔
کہیں سے نقب زنی میں بھی آ گئی وہ زلف
لعین صاحبِ زنداں ہے کیا ذہین مرا

مکمل خیال کو شعر میں باندھنا بہت مشکل ہو جائے گا۔
 

الف عین

لائبریرین
مشکل پسندی سے تو غالب بھی دور بھاگنے لگے تھے۔ اس سے بچیں۔ لوگ شعر کے مفہوم میں ہی کھوئے رہیں گے اور کسی نزاکت تک نہیں پہنچ سکتے ہیں اگر کچھ ہو بھی تو! ریحان میاں کے مشورے خوب ہیں
 
مشکل پسندی سے تو غالب بھی دور بھاگنے لگے تھے۔ اس سے بچیں۔ لوگ شعر کے مفہوم میں ہی کھوئے رہیں گے اور کسی نزاکت تک نہیں پہنچ سکتے ہیں اگر کچھ ہو بھی تو! ریحان میاں کے مشورے خوب ہیں
آپ نے سہی فرمایا سر۔ یہ غالب یا میر (ان کے چند ایک پیچیدہ اشعار اگر ہیں بھی تو) کی پیچیدہ شاعری ہی ہے جس کی میں پیروی کرنے کی کوشش کرتا ہوں لیکن لگتا ہے میرے علاوہ اور کسی کو یہ بات زیادہ پسند نہیں آتی۔ یہ ایک قسم کی مشق سمجھ لیجیے (مجھےشعر کہتے دس ماہ سے کم کا عرصہ ہوا ہے)۔
 
Top