غزل - (2024-04-05)

غزل پیش ِخدمت ہے۔ اساتذہ کرام سے اصلاح کی درخواست ہے:
الف عین ، ظہیراحمدظہیر ، سید عاطف علی ، محمد احسن سمیع راحلؔ ، یاسر شاہ

عمر گذری ہے گریہ کرنے میں
درد میں ڈوبنے ابھرنے میں

جاگتے رات کٹ گئی ساری
صبح کا انتظار کرنے میں

شغلِ مستی و کیف جاری ہے
وقت کافی ہے شب گذرنے میں

جن کے مدت لگی منانے پر
ان کو لمحہ لگا مکرنے میں

محو ِ پرواز ہو کے دشمن کے
وہ ہیں مشغول پر کترنے میں

خاکہِ زندگی میں انساں کو
عمر لگتی ہے رنگ بھرنے میں

ہم کو خورشید ہیں لگے برسوں
اس طرح ٹوٹ کر بکھرنے میں
 

الف عین

لائبریرین
غزل پیش ِخدمت ہے۔ اساتذہ کرام سے اصلاح کی درخواست ہے:
الف عین ، ظہیراحمدظہیر ، سید عاطف علی ، محمد احسن سمیع راحلؔ ، یاسر شاہ

عمر گذری ہے گریہ کرنے میں
درد میں ڈوبنے ابھرنے میں
ٹھیک ہے اگرچہ گریہ کی ہ کا اسقاط ناگوار لگتا ہے

جاگتے رات کٹ گئی ساری
صبح کا انتظار کرنے میں
اس میں گرامر کی غلطی لگتی ہے۔ رات کٹ گئی کے ساتھ دو افعال ساتھ ساتھ ہو گئے ہیں، جاگتے بمعنی جاگتے ہوئے اور صبح کا انتظار کرنے.... نثر بنا کر دیکھو تو بات واضح ہو گی۔جاگتے کے بغیر کوشش کرو

شغلِ مستی و کیف جاری ہے
وقت کافی ہے شب گذرنے میں
کافی کی بجائے باقی استعمال کیا جائے تو شاید زیادہ واضح ہو

جن کے مدت لگی منانے پر
ان کو لمحہ لگا مکرنے میں
جن کے؟ پہلا مصرع واضح نہیں ہوا
لمحہ کی جگہ "پل بھر" مزید بہتر ہو گا

محو ِ پرواز ہو کے دشمن کے
وہ ہیں مشغول پر کترنے میں
دشمن کے پر کترنے؟ دشمن اور پر دونوں الفاظ بہت دور جا پڑے!

خاکہِ زندگی میں انساں کو
عمر لگتی ہے رنگ بھرنے میں
اس میں بھی پچھلے شعر والا سقم ہے، یعنی خاکۂ زندگی میں رنگ بھرنے کی بات کے دونوں حصے ایک دوسرے سے زیادہ فاصلے پر ہیں

ہم کو خورشید ہیں لگے برسوں
اس طرح ٹوٹ کر بکھرنے میں
ہیں لگے؟ لگ گئے کہنا زیادہ رواں ہے
 
جاگتے رات کٹ گئی ساری
صبح کا انتظار کرنے میں
اس میں گرامر کی غلطی لگتی ہے۔ رات کٹ گئی کے ساتھ دو افعال ساتھ ساتھ ہو گئے ہیں، جاگتے بمعنی جاگتے ہوئے اور صبح کا انتظار کرنے.... نثر بنا کر دیکھو تو بات واضح ہو گی۔جاگتے کے بغیر کوشش کرو
سر الف عین صاحب! شفقت فرمانے کا شکریہ!
سابقہ شعر کی نثر اس طرح بنائی تھی (صبح کا انتظار کرنے میں ساری رات جاگتے کٹ گئی) اگر صحیح نہیں تو دوسری کوشش:
جاگ کر رات کٹ گئی ساری
صبح کا انتظار کرنے میں​
شغلِ مستی و کیف جاری ہے
وقت کافی ہے شب گذرنے میں
کافی کی بجائے باقی استعمال کیا جائے تو شاید زیادہ واضح ہو
آپ کی ہدایت کے مطابق:
شغلِ مستی و کیف جاری ہے
وقت باقی ہے شب گذرنے میں​
جن کے مدت لگی منانے پر
ان کو لمحہ لگا مکرنے میں
جن کے؟ پہلا مصرع واضح نہیں ہوا
لمحہ کی جگہ "پل بھر" مزید بہتر ہو گا
سر! نثر یہ ہے کہ: جن کے منانے پر مدت لگی ان کو مکرنے میں لمحہ لگا۔ ویسے تو کو کا استعمال بھی کیا جا سکتا ہے لیکن مجھے لگا شاید اس سے ابہام پیدا ہوگا۔آپ راہنمائی فرمادیں۔
آپ کی ہدایت پر:
جن کے مدت لگی منانے پر
ان کو پل بھرلگا مکرنے میں​
ہم کو خورشید ہیں لگے برسوں
اس طرح ٹوٹ کر بکھرنے میں
ہیں لگے؟ لگ گئے کہنا زیادہ رواں ہے
آپ کی ہدایت پر:
ہم کو خورشید لگ گئے برسوں
اس طرح ٹوٹ کر بکھرنے میں​
 

الف عین

لائبریرین
باقی تو واضح ہو گئے اشعار لیکن منانے کی مدت والا شعر کی وہی مسئلہ ہے۔نثر "جن کے / کو منانے پر مدت لگی" سے تو یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مراد " جن کو منانے میں / کے لئے بڑا عرصہ لگ گیا" ممکن ہے۔ منانے "پر "کے صلے سے مزید کنفیوژن ہوتا ہے۔کسی دوسرے طریقے سے یہی بات کہی جائے جیسے
ہم مناتے تھے جن کو برسوں سے
مصرع رواں تو نہیں لیکن بات واضح کرتا ہے
 
جن کے مدت لگی منانے پر
ان کو پل بھرلگا مکرنے میں

باقی تو واضح ہو گئے اشعار لیکن منانے کی مدت والا شعر کی وہی مسئلہ ہے۔نثر "جن کے / کو منانے پر مدت لگی" سے تو یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مراد " جن کو منانے میں / کے لئے بڑا عرصہ لگ گیا" ممکن ہے۔ منانے "پر "کے صلے سے مزید کنفیوژن ہوتا ہے۔کسی دوسرے طریقے سے یہی بات کہی جائے جیسے
ہم مناتے تھے جن کو برسوں سے
مصرع رواں تو نہیں لیکن بات واضح کرتا ہے
محترم سر! الف عین صاحب !اس طرح کہیں تو کیسا ہے؟
ہم مناتے رہے جنہیں برسوں
ان کو پل بھر لگا مکرنے میں
ویسے مناتے رہے یا مناتے تھے میں بھی ابہام ہے کہ منانے سے وہ مانا یا نہیں مانا۔ اور مکرنے کے لیے ماننا ضروری ہے۔ اس لیے سابقہ شعر یعنی
جس کے مدت لگی منانے پر
اُس کو پل بھر لگا مکرنے میں
میں یہ ابہام نہیں ہے۔
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
محترم سر! الف عین صاحب !اس طرح کہیں تو کیسا ہے؟
ہم مناتے رہے جنہیں برسوں
ان کو پل بھر لگا مکرنے میں
ویسے مناتے رہے یا مناتے تھے میں بھی ابہام ہے کہ منانے سے وہ مانا یا نہیں مانا۔ اور مکرنے کے لیے ماننا ضروری ہے۔ اس لیے سابقہ شعر یعنی
جس کے مدت لگی منانے پر
اُس کو پل بھر لگا مکرنے میں
میں یہ ابہام نہیں ہے۔
یہ ابہام اس وقت نہیں ہے جب قاری یہ مطلب سمجھ چکا ہو کہ شاعر کسی کو مدت تک منانے کی کوشش کرتا رہا ہے۔ یہ بات ہی اصل مصرع سے واضح نہیں لگتی۔ آگے تمہاری مرضی!
 
Top