غزل (2023-09-22)

محترم اساتذہ کرام سے اصلاح کی درخواست کے ساتھ:
الف عین ، ظہیراحمدظہیر ، سید عاطف علی ، محمد احسن سمیع راحلؔ ، یاسر شاہ
شگفتہ رُو کے رعنا لب کھُلے ہیں
شگوفے ہی شگوفے کھِل اُٹھے ہیں

سرورِ وصل زائل ہو نہ جائے
نہیں اب تک کسی سے ہم ملے ہیں

نظر بھر کر انہیں دیکھا نہیں ہے
نظر لگنے سے ہم ڈر سے گئے ہیں

غموں کی آنچ بھی اُس تک نہ پہنچے
سبھی غم اس لیے ہم نے سہے ہیں

تری بزمِ سخن کا سُن کے چرچا
ہنر اپنا پرکھنے ہم چلے ہیں

کسی نے لوٹ آنے کا کہا تھا
تبھی سے منتظر یہ در کھُلے ہیں

کسی نے کر دیا وعدہ وفا ہے
تحیر میں ابھی تک ہم کھڑے ہیں
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
خورشید بھائی، ذرا آسان اور عام استعمال کے الفاظ استعمال کرنے کی کوشش کیا کریں۔ جب تک مرکبات کی ضرورت نہ ہو ان سے احتراز کی کوشش کیا کریں۔

مطلع کے لیے ایک مشورہ۔

بہار آئی کہ ان کے لب کُھلے ہیں
شگوفے ہی شگوفے کھل اٹھے ہیں

اب اس میں بہار اور محبوب کے ہونٹوں سے نکلنے والے سانس کو ایک جیسا بتایا جا رہا ہے۔ جیسا کہ بہار کے آنے سے شگوفے کھل اٹھتے ہیں اسی طرح محبوب جب بات کرتا ہے تو اس سے بھی شگوفے کھلنے لگتے ہیں۔
 
خورشید بھائی، ذرا آسان اور عام استعمال کے الفاظ استعمال کرنے کی کوشش کیا کریں۔ جب تک مرکبات کی ضرورت نہ ہو ان سے احتراز کی کوشش کیا کریں۔

مطلع کے لیے ایک مشورہ۔

بہار آئی کہ ان کے لب کُھلے ہیں
شگوفے ہی شگوفے کھل اٹھے ہیں

اب اس میں بہار اور محبوب کے ہونٹوں سے نکلنے والے سانس کو ایک جیسا بتایا جا رہا ہے۔ جیسا کہ بہار کے آنے سے شگوفے کھل اٹھتے ہیں اسی طرح محبوب جب بات کرتا ہے تو اس سے بھی شگوفے کھلنے لگتے ہیں۔
مشورے کے لیے شکریہ بھائی عبدالرووف صاحب! مشورے کی حد تک ٹھیک ہے لیکن اساتذہ کا لہجہ اپنانا میرا خیال ہے کہ اس مرحلے پر ہمیں زیب نہیں دیتا۔
ویسے شگفتہ رُو ہی یہاں زیادہ مناسب ہے ۔جو تعلق آپ پیدا کرنے کی کوشش کررہے ہیں وہ میرا مدعا نہیں ہے۔ محبوب کے بات کرنے کو آپ بہار سے تشبیہ دے کر واضح کررہے ہیں جبکہ میرے محبوب کے لبو ں اور باتوں کے سامنے بہار کی کیا حیثیت۔
 

الف عین

لائبریرین
محترم اساتذہ کرام سے اصلاح کی درخواست کے ساتھ:
الف عین ، ظہیراحمدظہیر ، سید عاطف علی ، محمد احسن سمیع راحلؔ ، یاسر شاہ
شگفتہ رُو کے رعنا لب کھُلے ہیں
شگوفے ہی شگوفے کھِل اُٹھے ہیں
درست لیکن روفی کی بات بھی درست ہے کہ آسان الفاظ روانی کو فروغ دیتے ہیں، میرا مشورہ یہ ہو گا کہ شگفتہ رو تو رہنے دو مگر رعنا کی جگہ کچھ دوسرا لفظ لا کر دیکھیں
سرورِ وصل زائل ہو نہ جائے
نہیں اب تک کسی سے ہم ملے ہیں
کسی سے ہم نہیں اب تک۔۔۔ کہیں تو؟

نظر بھر کر انہیں دیکھا نہیں ہے
نظر لگنے سے ہم ڈر سے گئے ہیں
درست

غموں کی آنچ بھی اُس تک نہ پہنچے
سبھی غم اس لیے ہم نے سہے ہیں
خود ہی ہم نے سہہ لیے ہیں
کہیں تو؟

تری بزمِ سخن کا سُن کے چرچا
ہنر اپنا پرکھنے ہم چلے ہیں
ٹھیک

کسی نے لوٹ آنے کا کہا تھا
تبھی سے منتظر یہ در کھُلے ہیں
منتظر کی ضرورت؟
تبھی سے گھر کے دروازے کھلے ہیں

کسی نے کر دیا وعدہ وفا ہے
تحیر میں ابھی تک ہم کھڑے ہیں
پہلے مصرع کے الفاظ اور ترتیب بدلو، مجہول لگ رہا ہے مصرع
 
سر الف عین صاحب ! آپ کی ہدایات کی روشنی میں دوبارہ کوشش کی ہے ۔
شگفتہ رُو کے رعنا لب کھُلے ہیں
شگوفے ہی شگوفے کھِل اُٹھے ہیں
درست لیکن روفی کی بات بھی درست ہے کہ آسان الفاظ روانی کو فروغ دیتے ہیں، میرا مشورہ یہ ہو گا کہ شگفتہ رو تو رہنے دو مگر رعنا کی جگہ کچھ دوسرا لفظ لا کر دیکھیں
شگفتہ رُو کے شیریں لب کُھلے ہیں
کیسا ہے سر؟
سرورِ وصل زائل ہو نہ جائے
نہیں اب تک کسی سے ہم ملے ہیں
کسی سے ہم نہیں اب تک۔۔۔ کہیں تو؟
کسی سے ہم نہیں اب تک ملے ہیں
بہتر ہے سر۔
غموں کی آنچ بھی اُس تک نہ پہنچے
سبھی غم اس لیے ہم نے سہے ہیں
خود ہی ہم نے سہہ لیے ہیں
کہیں تو؟
سبھی غم خود ہی ہم نے سہ لیے ہیں
اچھا ہےسر لیکن شاید روانی تھوڑی کم ہے۔
کسی نے لوٹ آنے کا کہا تھا
تبھی سے منتظر یہ در کھُلے ہیں

منتظر کی ضرورت؟
تبھی سے گھر کے دروازے کھلے ہیں
تبھی سے گھر کے دروازے کھلے ہیں
سر بہترہے۔
کسی نے کر دیا وعدہ وفا ہے
تحیر میں ابھی تک ہم کھڑے ہیں

پہلے مصرع کے الفاظ اور ترتیب بدلو، مجہول لگ رہا ہے مصرع
اچانک ہو گیا دیدار اُن کا
کیسا ہے سر؟
 

الف عین

لائبریرین
اب بہتر ہو گئی ہے غزل۔ٰ سہہ لئے ہیںٰ کا کچھ اور متبادل مل جائے تو دیکھو ورنہٰ سہے ہیں ٰہی چلنےدو
 
Top