غزل ۔ کون اس داستان سے نکلے

شاہین فصیح ربانی


غزل


پہلے اس خاکدان سے نکلے
پھر کوئی آسمان سے نکلے

حسرتوں کے جہان سے نکلے
دل جو تیرے گمان سے نکلے

دونوں کردار ہی ضروری ہیں
کون اس داستان سے نکلے

اس کے ہونے سے میرا ہونا ہے
پھر وہ کیوں میرے دھیان سے نکلے

رنجشیں جس سے اور بڑھ جائیں
لفظ وہ کیوں زبان سے نکلے

سامنا ہے کسی سمندر کا
راستہ درمیان سے نکلے

کس کی خواہش نہیں فصیحؔ کہ وہ
سرخرو اس جہان سے نکلے​
 

الف عین

لائبریرین
واہ، اچھی غزل ہے۔ عزیز من اپنی ٍزلوں کو کمپائل کر کے مجھ کو ای میل کر دیں کہ ان کی برقی کتاب بنائی جا سکے۔ ایک عنوان بھی تجویز کر دیں کتاب کا۔
 
واہ، اچھی غزل ہے۔ عزیز من اپنی ٍزلوں کو کمپائل کر کے مجھ کو ای میل کر دیں کہ ان کی برقی کتاب بنائی جا سکے۔ ایک عنوان بھی تجویز کر دیں کتاب کا۔

حوصلہ افزائی کرنے کے لیے بہت شکرگزار ہوں آپ کا،
ہر پل شاد رہیے۔
آپ کا ای میل ایڈریس درکا ہو گا غزلیں بھیجنے کے لیے لیکن کچھ وقت لگ جائے گا۔
آپ کی اس نوازش کے لیے بھی بہت ممنون ہوں۔
 
Top