غزل : یہ صبح تاریکیوں کو گردوں سے عاق کرتی کہ رو دیا میں : از : دانش نذیر دانی

غزل​

یہ صبح تاریکیوں کو گردوں سے عاق کرتی کہ رو دیا میں​
سکوت ِ شب کو خیال ِ جاں نے دی ایسی تھپکی کہ رو دیا میں​
مجھے لگا تھا سفر اندھیروں کا جان لے لے گا آج میری​
چراغ ِ مدہم نے بیچ شب کے یوں آنکھ جھپکی کہ رو دیا میں​
جناب ِ ساقی نے تذکرہ ءِ شباب چھیڑا تھا میکدے میں​
تو جام پیتے ہی تجھ پہ میری وہ سوئی اٹکی کہ رو دیا میں​
میں بلبلوں کا حمائیتی تھا کہ حال ان کا ہے میرے جیسا​
گلاب چہروں نے آج مجھ سے وہ بات کہہ دی کہ رو دیا میں​
پچھڑ کے مجھ سے نڈھال ہوگی مجھے یقیں ہے جناب ہوگی​
وہ وصل کی شب تو میری بانہوں میں اتنی خش تھی کہ رو دیا میں​
دانش نذیر دانی​
 

مغزل

محفلین
دانش میاں اچھی غزل کہتے ہیں آپ ماشا اللہ ، اللہ اظہار میں برکت دے ، آمین
کہیں کہیں املا کی اغلاط ہیں انہیں ’’ تدوین “ کا بٹن دبا کر درست کرلیجے ۔ اور کوشش کیجے کہ
فارمیٹ کرنے میں وقوف و سکتہ کی علامات نہ استعمال کریں، اور معلوم پڑتا ہے کہ آپ نے
جمیل نستعلیق فونٹ بھی انسٹال نہیں کیا ہوا ، شاید یہ وجہ ہے کہ آپ کو فارمیٹنگ کرنی پڑتی ہے ۔
 
پزیرائی کیلئے ممنون ہوں ۔ میں عرض کر چکا ہوں کے مجھے ابھی اس ویب کو استعمال کرنے میں دقت محسوس ہو رہی ہے انشااللہ جلد ان کوتاہیوں پہ قابو پا لیا جائے گا۔ شائد آپ نے غزل درست کر کے لگا دی ہے جس کییلئے تہہ دل سے شکر گزار ہوں۔
 
Top