نصیر ترابی غزل : یہ سفر ہے حسرتوں کا اسے ناتمام رکھنا - نصیر ترابی

غزل
یہ سفر ہے حسرتوں کا اسے ناتمام رکھنا
کبھی یارِ دل شکن سے کبھی دل سے کام رکھنا

یو نہی دُور دُور رہنا وہ ملے تو کچھ نہ کہنا
پسِ حرفِ بے تکلم اُسے ہمکلام رکھنا

کسی شامِ دل دہی سے کسی صبح جاں کنی سے
جو چراغ بجھ رہا ہو اُسے میرے نام رکھنا

کسی یاد کی حنا کو گلِ دستِ شب بنایا
کسی آنکھ کے دیئے کو سرِ طاقِ شام رکھنا

یہ ہوائے بے خیالی تو ہے کام آنے والی
نہ کوئی گلہ گزاری نہ دعا سلام رکھنا

جو زیادہ بے دِلی ہو فزوں شکستگی ہو
بہت انتظار کرنا ، بہت اہتمام رکھنا

یہ نصیرؔ طور کیا ہے ترے دل میں اور کیا ہے
نہ حسابِ راہ کوئی نہ خیالِ بام رکھنا
نصیرؔ ترابی
1991ء
 
Top