غزل: ہوں شراب و کباب کی باتیں

غزل

ہوں شراب و کباب کی باتیں
چھوڑ دو انقلاب کی باتیں


گھر میں اک بھی دیا نہیں باقی
اور ہیں آفتاب کی باتیں


ہم نے سودا نہیں کیا تم سے
کیا حساب و کتاب کی باتیں


ضعف دل دھڑکنوں سے مت پوچھو
ہو رہی تھیں شباب کی باتیں


ایک لمحے کو جی لیے ہم بھی
یاد آئیں جناب کی باتیں


آؤ جنت کی گفتگو کرلیں
مت کرو یہ عذاب کی باتیں


منہ سے آنے لگی مرے خوشبو
کتنی پیاری گلاب کی باتیں


زندگی ہے گناہ کا دھندا
اور اس پر ثواب کی باتیں


اک طرف آپ کے سبھی کرتوت
تس پہ عزت مآب کی باتیں


وہ جو سنتا ہے نغمئہ لاہوت
اس سے چنگ و رباب کی باتیں


جان لیتا ہے وہ مرے دل کی
پھر سوال و جواب کی باتیں


ماندگی دل کی دور کرنی ہو
کرلو پھر آب و تاب کی باتیں


بحث واعظ سے میکدے میں حسیب
ہائے خانہ خراب کی باتیں


حسیب احمد حسیب
 

امین شارق

محفلین
غزل

ہوں شراب و کباب کی باتیں
چھوڑ دو انقلاب کی باتیں


گھر میں اک بھی دیا نہیں باقی
اور ہیں آفتاب کی باتیں


ہم نے سودا نہیں کیا تم سے
کیا حساب و کتاب کی باتیں


ضعف دل دھڑکنوں سے مت پوچھو
ہو رہی تھیں شباب کی باتیں


ایک لمحے کو جی لیے ہم بھی
یاد آئیں جناب کی باتیں


آؤ جنت کی گفتگو کرلیں
مت کرو یہ عذاب کی باتیں


منہ سے آنے لگی مرے خوشبو
کتنی پیاری گلاب کی باتیں


زندگی ہے گناہ کا دھندا
اور اس پر ثواب کی باتیں


اک طرف آپ کے سبھی کرتوت
تس پہ عزت مآب کی باتیں


وہ جو سنتا ہے نغمئہ لاہوت
اس سے چنگ و رباب کی باتیں


جان لیتا ہے وہ مرے دل کی
پھر سوال و جواب کی باتیں


ماندگی دل کی دور کرنی ہو
کرلو پھر آب و تاب کی باتیں


بحث واعظ سے میکدے میں حسیب
ہائے خانہ خراب کی باتیں


حسیب احمد حسیب
بہت خوب۔

یہ غزل پڑھ کے لظف آیا ہے
مجھے اچھی لگیں جناب کی باتیں​
 
Top