غزل : گمان و شک کے تلاطم! اُتار پار مجھے - وحید اختر

غزل
گمان و شک کے تلاطم! اُتار پار مجھے
نہیں گنارا تو گرداب میں اُتار مجھے

جو گل تھے زینتِ دستارِ شہسوارِ بہار
ملے ہیں بن کے غبارِ پسِ بہار مجھے

صلیبِ معرفتِ ذات کائنات ہے آج
وہ دن گئے کہ خوش آتی تھی کوئے یار مجھے

مجھے خبر ہے تری آستیں میں خنجر ہے
جو وار کرنا ہے نظریں ملا کے مار مجھے

تمام رات کا جاگا ہوا تھا سویا ہوں
ٹھہر کے در پہ مرے اے سحرپکار مجھے

اگر ہے نور کا سایل ہوا کرے خورشید
خود اپنی آگ کی تابش ہے ساز گار مجھے

رضائے مسند و کرسی کے تھے سبھی خواہاں
غزیز خاک نشینوں کا تھا وقار مجھے

خدا کو پا کے زمانہ پرست کھو بیٹھے
انا پرستی میں ہاتھ آیا کردگار مجھے
وحید اختر
12نومبر 1974ء
 
Top