غزل : گراں عہدِ وفا کی پاسداری کون کرتا ہے از نویدظفرکیانی

گراں عہدِ وفا کی پاسداری کون کرتا ہے
زمانے تیرے اِس پتھر کو بھاری کون کرتا ہے
ہماری خود کلامی ہے جو ہم سے کھیل لیتی ہے
ہمارے سامنے باتیں تمہاری کون کرتا ہے
رہے ہیں سرخرو حدِ نظر تک کی مسافت میں
مگر اگلے مراحل کی تیاری کون کرتا ہے
لرزتے ‘ بھاگتے ‘ چھپتے ہوؤں کو دیکھ کر سوچو !
اِسی جنگل کے باسی کو شکاری کون کرتا ہے
ظفر ہر کام چلتا ہے دِلوں کی آمریت سے
محبت کے لئے رائے شماری کون کرتا ہے
نویدظفرکیانی
 

اسد قریشی

محفلین
رہے ہیں سرخرو حدِ نظر تک کی مسافت میں
مگر اگلے مراحل کی تیاری کون کرتا ہے
اچھی غزل ہے کیانی صاحب، مذکورہ شعر کے مصرعہِ ثانی میں قافیہ دیکھ لیجیئے گا۔
 
Top