عزیز حامد مدنی غزل : کچھ تو کُھلے یہ درد سا کیا ہے جگر کے پاس - عزیز حامد مدنی

غزل
کچھ تو کُھلے یہ درد سا کیا ہے جگر کے پاس
مجھ کو بھی لے چلو کسی صاحب نظر کے پاس

اے روحِ دشت قرب کا اتنا بھی پاس کیا
پہنچے ہمارے ساتھ بگولے بھی گھر کے پاس

دامن جلا کے آئی ہوا ساکنانِ شہر
کیسی یہ آنچ سی ہے جہانِ خبر کے پاس

رہبر بنی تھی پیاس میں پروازِ طائراں
اُترے تلاشِ آب میں ویرانہ تر کے پاس

ساری یہ پیچ و تاب تھی آمد بہار کی
لائی ہوا کی موج جو زنجیر سر کے پاس

یہ فرق ہے سرشت کا فیاض موجِ بحر
دستِ بخیل بن کے نہ پہنچی گہر کے پاس

تدبیرِ چارہ گر سے فزوں تر ہے درد آج
اب دو قدم اجل ہے دھواں ہے نظر کے پاس

تاریخِ یادگارِ جنوں ہو کے رہ گیا
اک تیرے خال و خط کا مرقع نظر کے پاس

مدنیؔ وصالِ دوست کی قیمت نہ ہو سکی
باقی لہو کی بوند جو تھی چشمِ تر کے پاس
عزیز حامد مدنی
1980ء
 
Top