غزل : کل کو جاری قتل کا فرمان بھی ہو جائے گا - اقبال ساجد

غزل
کل کو جاری قتل کا فرمان بھی ہو جائے گا
دستخط تو ہو چکے ، اعلان بھی ہو جائے گا

غیر کے کالے سمندر میں گرا دے گا کوئی
میں اگر دریا ہوں ، وہ ڈھلوان بھی ہو جائے گا

شب سیاہی بھی مری قسمت میں لکھی جائے گی
اور طلوعِ صبح کا اعلان بھی ہو جائے گا

رفتہ رفتہ حسرتوں کی آگ بھی برفائے گی
آنسوؤں کا منّجمد طوفان بھی ہو جائے گا

خواہشیں ننگے بدن ناچیں گی دل کے سامنے
یہ فرشتہ دیکھنا شیطان بھی ہو جائے گا

جسم کے اندر لہو کی فصل بھی اُگ آئے گی
ایک دن پورا مرا نقصان بھی ہو جائے گا

خاکِ دل سے ایک دن اُٹھے گا سورج کا خمیر
پُر کبھی کرنوں سے روشن دان بھی ہو جائے گا

سب قُصور اس کا سہی لیکن خطا اپنی بتا
بات بھی بن جائے گی ، احسان بھی ہو جائے گا

رفتہ رفتہ آئے گی اقبال ساجدؔ کو بھی عقل
جانور سے یہ کبھی انسان بھی ہو جائے گا
اقبال ساجد
 
آخری تدوین:
Top