غزل : پھر اندھیرے نور کا دہوکہ پہن کر آئیں گے - از نویدظفرکیانی

پھر اندھیرے نور کا دہوکہ پہن کر آئیں گے
آگہی جب کانچ کا بُت ہے تو پتھر آئیں گے

کٹ کے آنگن میں گری کیسی نگاہوں کی پتنگ
لوٹنے والی تمناؤں کو چکر آئیں گے

یہ جو کہساروں کی پھسلن ہے کہیں بہہ جائے گی
دیکھنا اِک روز ہم چوٹی کو چھو کر آئیں گے

موسموں نے جب بھی پہنی ہیں گلابی مہندیاں
کیوں گماں ہوتا ہے کہ طوفان ہی گھر آئیں گے

پانیوں کے شور غراتے ہی رہ جائیں گے اور
ہم ندی پر سے گزر جائیں گے اوپر آئیں گے

اسمِ اعظم سے زبانوں کی گرہیں کھلنے تو دو
طاقتوں کے دیوتا معبد سے باہر آئیں گے
نویدظفرکیانی
 

الف عین

لائبریرین
خوب غزل ہے نوید۔
اسمِ اعظم سے زبانوں کی گرہیں کھلنے تو دو
میں گرہیں کا غلط تلفظ استعمال ہو رہا ہے۔ محض گرہ کر دیں یا کوئی دوسرا لفظ۔
 
شکریہ عبید صاحب ۔۔۔۔ مجھے ہمیشہ آپ کی رائے کا انتظار رہتا ہے۔
گرہ بھی درست معلوم ہوتا ہے لیکن "ہنر" کے بارے میں کیا خیال ہے؟

اسمِ اعظم سے زبانوں کا ہنر کھلنے تو دو
طاقتوں کے دیوتا معبد سے باہر آئیں گے
 
Top