ساغر صدیقی غزل : وہ عزم ہو کہ منزلِ بیدار ہنس پڑے - ساغر صدیقی

غزل
وہ عزم ہو کہ منزلِ بیدار ہنس پڑے
ہر نقش پا پہ جراتِ رہوار ہنس پڑے

اب کے برس بہار کی صورت بدل گئی
زخموں میں آگ لگ گئی گلزار ہنس پڑے

اس داستانِ درد کی تمہید آپ ہیں
جس داستانِ درد پہ غم خوار ہنس پڑے

حیران ہو رہی ہے شکوفے پہ چاندنی
شاید قفس پہ آج گرفتار ہنس پڑے

مٹ جائے تیرے نام سے ہر تلخیِ جفا!
وہ کام کر کہ بے کس و نادار ہنس پڑے

میرے جنوں نے آج وہ سجدہ ادا کیا !
بت خانۂ حیات کے آثار ہنس پڑے

پھر شادماں ہوئے ہیں خرابے حیات کے
ساغرؔ کسی کے گیسوئے خم دار ہنس پڑے
ساغر صدیقی
 

الف نظامی

لائبریرین
مٹ جائے تیرے نام سے ہر تلخیِ جفا!
وہ کام کر کہ بے کس و نادار ہنس پڑے

میرے جنوں نے آج وہ سجدہ ادا کیا !
بت خانۂ حیات کے آثار ہنس پڑے

 
Top