غزل : نہ ساقی ہے نہ پیمانہ ہے باقی از: محمد حفیظ الرحمٰن

غزل​
از: محمد حفیظ الرحمٰن​
نہ ساقی ہے نہ پیمانہ ہے باقی​
فقط صحرا میں دیوانہ ہے باقی​
نہ اب وہ مور باقی ہیں نہ جنگل​
مگر اک رقصِ مستانہ ہے باقی​
یہ کیسی آندھیاں سی چل رہی ہیں​
نہ گلشن ہے نہ ویرانہ ہے باقی​
اگرچہ جل چکی رسی کبھی کی​
مگر اک فخرِ شاہانہ ہے باقی​
عیاں ہے اپنی گمراہی سے اتنا​
کہ دل میں اپنے بت خانہ ہے باقی​
بہا کر لے گیا سیلاب سب کچھ​
غنیمت ہے کہ مے خانہ ہے باقی​
ہے دل میں آنے والی کل کا دھڑکا​
یہی اک خوف انجانا ہے باقی​
تمھارے دل میں رونق ہو چکی ہے​
مرے دل میں تو ویرانہ ہے باقی​
سزا تو کاٹ لی دل نے خطا کی​
مگر آنکھوں کا جرمانہ ہے باقی​
یونہی جلتی رہے گی شمع اے دل​
کہ جب تک کوئی پروانہ ہے باقی​
 
جناب امجد علی راجا صاحب۔ غزل کی پسندیدگی کا بہت بہت شکریہ۔ میں نے آپ کا تعارف بھی پڑھا اور بہت متاثر ہوا۔ امید ہے آپ سے بھی بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملے گا۔
 

امر شہزاد

محفلین
ماشاءاللہ
ہر شعر قابل داد ہے۔

یہ غلطی اگر ٹائپنگ کی ہے تو درست کر لیجیے گا۔

ہے دل میں آنے والی کل کا دھڑکا (کل مذ کر ہوتا ہے)
یہی اک خوف انجانا ہے باقی
 
بھائ امر شہزاد صاحب۔ غزل کی پسندیدگی پر بےحد مشکور ہوں۔ اتنی باریک بینی سے مطالعہ کا خصوصی شکریہ۔ " کل " کے مذکر ہونے پر استادِ محترم جناب اعجاز عبید صاحب سے رائے کی درخواست ہے۔
 
Top