غزل نمبر187 شاعر امین شارؔق صاحب لڑیامین شارق تاریخ ابتداءجمعرات بوقت 9:06 شام ٹیگالف عین ،خلیل الر حمن یاسر شاہ اور دیگر اس

امین شارق

محفلین
کیا سبب ہے جو یہ اشکِ رواں نکلتا ہے
آنکھ سے ہو کر یہ رستہ کہاں نکلتا ہے

اشک بہنے کا سبب کُچھ نہ کُچھ رہا ہوگا
آگ لگتی ہے کہیں تب دُھواں نکلتا ہے

مرے جذبات کو نہ اپنی ہنسی میں ٹالو
کھیل ہے تیرے لئے دم یہاں نکلتا ہے

کیسے آتے ہیں زمیں پر یہ فلک کے باسی
کوئی در ہے جو سرِ آسماں نکلتا ہے

اپنے کِردار کو پاکی سے مزین رکھو
داغ لگ جائے تو پھر کب نِشاں نکلتا ہے

ظُلم کے سامنے ڈٹ جاؤ اور چُپ نہ رہو
اپنے حق کے لئے سارا جہاں نکلتا ہے

دو کنارے ہیں سمندر کے دُنیا و عُقبٰی
جو یہاں ڈُوبتا ہے وہ وہاں نکلتا ہے

تیرگئ شب سے نہ گبھراؤ نا امید نہ ہو
دیکھ ہر روز صُبح ضوفشاں نکلتا ہے

ایسا لگتا ہے شارق یہ خفا ہے قسمت
نغمہ سمجھے جِسے ہم وہ فِغاں نکلتا ہے
 
Top