فراز غزل - نظر بجھی تو کرشمے بھی روز و شب کے گئے ( احمد فراز)

نظر بجھی تو کرشمے بھی روز و شب کے گئے
کہ اب تلک نہیں نظر آئے ھیں لوگ جب کے گئے

سنے گا کون تری بے وفائیوں کا گلہ
یہی ھے رسم زمانہ تو ھم بھی اب کے گئے

مگر کسی نے ھمیں ھمسفر نہیں جانا
یہ اور بات کہ ھم ساتھ ساتھ سب کے گئے

اب آئے ھو تو یہاں کیا ھے دیکھنے کیلیے
یہ شہر کب سے ھے ویراں وہ لوگ کب کے گئے

گرفتہ دل تھے مگر حوصلہ نہ ہارا تھا
گرفتہ دل ھیں مگر حوصلے بھی اب کے گئے

تم اپنی شمع تمنا کو رو رہے ھو فراز
ان آندھیوں میں تو پیارے چراغ سب کے گئے
 
Top