غزل: میں بدگمان رہوں بھی تو خوش گماں کوئی ہے - م م مغل

غزل
میں بدگمان رہوں بھی تو خوش گماں کوئی ہے
یہاں پہ میرے علاوہ بھی ناگہاں کوئی ہے

سکوتِ ہجر کے آسیب رقص کرتے ہیں
مجھے یقین دلاؤ کہ نغمہ خواں کوئی ہے

یہ میں جو لمس کی عادت میں سانس کھینچتا ہوں
مجھے خبر ہی نہیں مجھ میں رائگاں کوئی ہے

وہ خواب ہوں جو ہوا خواب گاہ میں مصلوب
تو ایسے خواب کی تعبیر کشتگاں کوئی ہے

وصال ریزی و دل بستگی و سجدۂ عشق
تو اس نماز سے پہلے بھی کیا اذاں کوئی ہے

مزاج پوچھتا پھرتا ہے غم گریباں کا
شعورِ بخیہ گری میرا مہرباں کوئی ہے

غزال دشتِ تعلق میں رم کے پہرے بٹھائے
سراب نوحہ کناں ہے کہ تشنگاں کوئی ہے

جبین سے قدمِ نازنین کیا اٗٹھّے
زمین پوچھتی پھرتی ہے آسماں کوئی ہے

میں ایک قوس میں رکھا گیا ہنر محمودؔ
خیال ہی نہ رہا زیبِ داستاں کوئی ہے
م م مغل
 
آخری تدوین:
Top