غزل : موجد کا حسن اپنی ہی ایجاد کھا گئی - تنویر سپرا

غزل
موجد کا حسن اپنی ہی ایجاد کھا گئی
ماں کا شباب کثرتِ اولاد کھا گئی

دیہات کے وجود کو قصبہ نگل گیا
قصبے کا جسم شہر کی بنیاد کھا گئی

اک عمر جس کے واسطے دفتر کیے سیاہ
اس مرکزی خیال کو روداد کھا گئی

تیری تو شان بڑھ گئی مجھ کو نواز کر
لیکن مرا وقار یہ امداد کھا گئی

کاریگروں نے بابوؤں کو زیر کر لیا
محنت کی آنچ کاغذی اسناد کھا گئی

شیریں کے تن کو چاٹ گئی خسروی ہوس
نہرِ سپید، قامتِ فرہاد کھا گئی

قد تو پھلوں کا بڑھ گیا دور جدید میں
سپرا مگر اثر کو نئی کھاد کھا گئی
تنویر سپرا
 

یاقوت

محفلین
محترم تنویر سپرا کی مزید شاعری آن لائن کہیں مل سکتی ہے؟؟؟؟؟
کوئی مجموعہ وغیرہ یا ذخیرہ وغیرہ؟؟؟؟؟؟
اور سرور ارمان کے بارےمیں بھی کچھ ہو جائے تو کیا بات ہے۔
 
Top