غزل : منّت سے کوہِ طور اگر سر بھی ہو تو کیا - اختر عثمان

غزل
منّت سے کوہِ طور اگر سر بھی ہو تو کیا
ایسے مرادِ وصل بر آور بھی ہو تو کیا

صُورت نمائیوں سے اُٹھا کب کا دستِ شوق
اب سنگِ صوت یاب میں پیکر بھی ہو تو کیا

اک دشتِ بے دلی ہے لہو میں نمو پزیر
اوّل تو گھر نہیں ہے اگر گھر بھی ہو تو کیا

تم ہو تو کیا کہ ذوقِ نظارہ ہوا تمام
اپنی بَلا سے آئنہ پرور بھی ہو تو کیا

تا چند گرد باد کی صورت پھرا کریں
محور نہیں تو کیا ہے ، جو محور بھی ہو تو کیا

سودائے سر سے کام ہے اپنا ، سو کیا گریز
دیوار سامنے ہے تو کیا ، در بھی ہو تو کیا

جب موج ہی نہیں ہوسِ باز دید کی
پھر اب کسی کا حسن میّسر بھی ہو تو کیا

آشفتگانِ دہر کا ربذہ مقام ہے
بوذر ہوئے تو کیا ہے ، جو اختر بھی ہو تو کیا
اختر عثمان
 
Top