غزل --مری آنکھوں میں جو منظر ہے وہ منظر بدل جاتا----ضیاء اعظمی


غزل

ضیا ء الرحمان ضیاء اعظمی

مری آنکھوں میں جو منظر ہے وہ منظر بدل جاتا
ستاروں سے بھرا یہ آسماں یکسر بدل جاتا

جو شعلہ ہے مری مٹھی میں بن جاتا گل تر وہ
ہے میرے یار کے ہاتھوں میں جو پتھر بدل جاتا

مرے ذوق جبیں سائی کی وحشت دیکھ کر اب تک
نہ بدلا وہ ستم گر کاش سنگ در بدل جاتا

اٹھے ہیں بن کے وہ دشمن جنہیں پالا جنہیں پوسا
نہ یہ ممکن ہوا پھر بھی مرا تیور بدل جاتا

خدا محفوظ رکھے اس کے سونے کی اداؤوں کو
نہ چاہوں میں کبھی اے کاش یہ بستر بدل جاتا

کبھی آنکھیں کبھی باتیں ٹہوکے اور کبھی نازش
کبھی یادیں بدل جاتیں کبھی دل بر بدل جاتا

ضیاؔ مذہب سے بیزاری میں وہ اکثر یہ کہتے ہیں
بدل جاتی شریعت اور پیغمبر بدل جاتا

 
Top