غزل : فرصتِ نظارگی پچھلے پہر ہو بھی تو کیا - م م مغل

غزل
فرصتِ نظارگی پچھلے پہر ہو بھی تو کیا
بجھ گئیں آنکھیں ہماری اب سحر ہو بھی تو کیا

مجھ کو اپنے جسم کا سایہ بہت ہے دھوپ میں
منتظر میرا کہیں کوئی شجر ہو بھی تو کیا

ہاں سفر لپٹا ہے پیروں میں غزال آباد کا
راہ میں بے قافلہ ہونے کا ڈر ہو بھی تو کیا

زندگی تو چل پڑی ہے آخرش سوئے عدم
راہ زَن ہو بھی تو کیا ہے راہ بَر ہو بھی تو کیا

ہم تو بس آوارگانِ شب ہیں محمودؔ آج کل
گھر نہیں اپنا تو کیا ہے اور اگر ہو بھی تو کیا​
م م مغل
 
آخری تدوین:
Top