غزل :غزل: صبح کو دیر بڑی ہے ، سو جاؤ - وحید اختر

غزل
صبح کو دیر بڑی ہے ، سو جاؤ
رات ابھی پوری پڑی ہے ، سو جاؤ

کیوں گنہگار ہوں چشم و لب و گوش
نفسی نفسی کی گھڑی ہے ، سو جاؤ

نیند کو سونپ دو سب زخم اپنے
پھانس نس نس میں گڑی ہے ، سو جاؤ

جاگتے عُمر کٹے گی کیسے
نیند پلکوں پہ گھڑی ہے ، سو جاؤ

رات بھاری ہے تو وحشت کیوں ہے
عمرِ غم شب سے بڑی ہے ، سو جاؤ

وہ لڑا تم سے ، خفا نیند سے تم
شب منانے کو کھڑی ہے ، سو جاؤ

خواب کے شہر کے اک حجلے میں
اس کی تصویر جڑی ہے ، سو جاؤ

اپنے انفاس سے کیوں اُلجھے ہو
سانس سینے میں اڑی ہے ، سو جاؤ

درد کو نالوں میں رُسوا نہ کرو
اس سے امید بڑی ہے ، سو جاؤ

آگے اس رہ میں ہیں اشکوں کے سراب
منزلِ ضبط کڑی ہے ، سو جاؤ

گھر سے نکلے بھی تو پاؤ گے کسے
آج ساون کی جھڑی ہے ، سو جاؤ

بحرِ ظلمات میں آںسو نہ گراؤ
یہ بھی موتی کی لڑی ہے ، سو جاؤ

صبح کے خوابوں سے آنکھیں بھرلو
سب پہ یہ رات کڑی ہے ، سو جاؤ

جسے آنا ہے ، خود آئے گا وحیدؔ
آنکھ کیوں در سے لڑی ہے ، سو جاؤ
وحیدؔ اختر
19 مارچ 1974 ء
 
Top