غزل: طائرِ وقت کی پرواز طلسماتی ہے

طائرِ وقت کی پرواز طلسماتی ہے
پلکیں جھپکاتے ہی تاریخ بدل جاتی ہے

زندگی وقت کے ہاتھوں یہ سزا پاتی ہے
شیشہ رہتا ہے وہی شکل بدل جاتی ہے

میرے غم اور تِرے غم میں ہے کس درجہ تضاد
غم ہے آفاقی مِرا اور تِرا ذاتی ہے

زندگی کتنی ہی رفتار تِری تیز سہی
خاص اک موڑ پہ تُو آکے ٹھہر جاتی ہے

جو شبِ ہجر مِرے ساتھ جلا کرتے ہیں
ان چراغوں سے تعلق مِِرا جذباتی ہے

کس لیے دیتا ہے الزام تُو آئینے کو
شکل جیسی ہے تِری ویسی نظر آتی ہے

بھوک سے ہاتھ مصور کے لرز جاتے ہیں
بنتے بنتے تِری تصویر بگڑ جاتی ہے

سچ کے دیوانے تجھے اس کی خبر ہے کہ نہیں
ہوکے مقتل سے تِری راہ گزر جاتی ہے

تلخ ہوجاتے ہیں سب خون کے رشتے یارو
شکل جب فرض کو احسان کی دی جاتی ہے

اس قبیلے سے ہے پروؔاز تعلق میرا
جس کے سر روز نئی ایک بلا آتی ہے​

کلام: استاذالشعراء حضرت عبدالمنان پروؔاز دھولیوی
 
مدیر کی آخری تدوین:
Top