غزل: ستاروں کو ہم رات بھر باندھتے ہیں

غزل


ستاروں کو ہم رات بھر باندھتے ہیں
چلے آؤ شام و سحر باندھتے ہیں


محافظ کو جاکر خبر دار کر دو
لٹیرے تو سارا ہی گھر باندھتے ہیں


ہزل جن پہ لکھنی تھی اہل جنوں کو
سخنور انھیں معتبر باندھتے ہیں


بڑے پست ہیں وہ اسیران جدت
جو شاہین کے بال و پر باندھتے ہیں


بہت دیر کی تو نے آنے میں ظالم
کہ جذبات رخت سفر باندھتے ہیں


بکھرنے کو ہے ملک سارا ہی منصف
تو کاہے کو یہ بام و در باندھتے ہیں


گھٹائیں یہ زلفوں کی روکیں تو کیسے
ادھر باندھتے ہیں ادھر باندھتے ہیں


وہ شبنم سے تیار کر کے قفس کو
" رگ گل سے بلبل کے پر باندھتے ہیں"


طبیعت ہے ناساز شاید کسی کی
وہ ململ کی پٹی سے سر باندھتے ہیں


یقیں مجھ کو آوے مگر کیسے آوے
جو منظر ترے نامہ بر باندھتے ہیں


لگاتے ہیں سرخی وہ عارض پہ اپنے
صحافی ہمارے خبر باندھتے ہیں


حسیب ان سے کہنے کا موقع نہیں اب
پیامی بھی رخت سفر باندھتے ہیں


حسیب احمد حسیب
 
Top