غزل : سایہ کوئی ، گمان کوئی ، کوئی چھب تو ہو - اختر عثمان

غزل
سایہ کوئی ، گمان کوئی ، کوئی چھب تو ہو
میں اُس کو مانتا ہوں مگر ایک رب تو ہو

مصرعوں سے جھانکتی ہوئی خوابوں کی تُند موج
سہنے کی بات اور ہے کہنے کا ڈھب تو ہو

تم خون میں نہیں تھے تو خاموش تھا یہ دل
کوئی صدا تمہاری طرف سے کہ اب تو ہو

اٹھ بھی چکو کے نصرتِ شبیر کے لیے
اب کس کا انتطار ہے تم لوگ سب تو ہو

موزوں سہی پہ علتِ دنیا کا کیا کرو
احساس میرے پاس ہے لیکن سبب تو ہو

بے داد و داد کیا ہے کہ فن ہی نہیں رہا
ہاں اے گروہِ آئینہ سازاں ادب تو ہو

سر سبز کس طرح ہو یہ بزمِ سخنوراں
بزمِ سخنوراں میں کوئی شعلہ لب تو ہو

اخترؔ مجھے قبول ہے یہ وسوسوں کی رہ
میں زلف کا اسیر ہوں ہوتی ہے شب تو ہو
اخترعثمان
 
Top