غزل: رہا یوں ہی نامکمل، غمِ عشق کا فسانا از: اقبال صفی پوری

غزل
اقبال صفی پوری

رہا یوں ہی نامکمل، غمِ عشق کا فسانا
کبھی مجھ کو نیند آئی، کبھی سو گیا زمانا

یہ ادائیں بہکی بہکی، یہ نگاہ ساحرانا
کہ جہاں بھی تو نے چاہا، وہیں رک گیا زمانا

ذرا اپنے حُسنِ خودبیں کو شکست سے بچانا
مری ہر نظر ہے جلوہ مرے سامنے نہ آنا

مجھے اس کا غم نہیں ہے کہ بدل گیا زمانا
مری زندگی ہے تم سے کہیں تم بدل نہ جانا

مری بندگی ہے محکم، مرا عزم ہے مکمل
میں جہاں پہ سر جُھکا دوں وہیں تیرا آستانا

وہ حسین زلف بکھری تو مہک گئیں فضائیں
وہ نگاہِ ناز اُٹھی تو سنور گیا زمانا

وہیں جام میں ڈبو دی مری مستیوں نے توبہ
جو اُٹھی نگاہِ ساقی، مجھے مل گیا بہانا

مری زندگی ترا غم، ترا غم متاعِِ عالم
مرے ساتھ صرف تو ہے، ترے ساتھ ہے زمانا

ہے جو مجھ میں اور تجھ میں کوئی فرق تو بس اتنا
تری زندگی حقیقت، مری زندگی فسانا

وہ ابھی گئے ہیں اقبال اِسی راستے سے ہو کر
مرے دل کو یہ یقیں ہے کہ گزر گیا زمانا
 
محفل فورم صرف مطالعے کے لیے دستیاب ہے۔
Top