فراق غزل - رکی رکی سی شب ہجر ختم پر آئی - فراق گورکھپوری

غزل

رکی رکی سی شب ہجر ختم پر آئی
وہ پو پھٹی وہ نئ زندگی نظر آئی

یہ وہ موڑ ہے کہ پرچھائیاں بھی دیں گی نہ ساتھ
مسافروں سے کہو ، اس کی راہگزر آئی

کسی کی بزم طرب میں حیات بٹتی تھی
امیدواروں میں کل موت بھی نظر آئی

کہاں ہر ایک سے بار نشاط اٹھتا ہے
کہ یہ بلا بھی ترے عاشقوں کے سر آئی

فضا تبسم صبح بہار تھی لیکن
پہنچ کے منزل جاناں یہ آنکھ بھر آئی

ذرا وصال کے بعد آئینہ تو دیکھ اے دوست
ترے جمال کی دوشیزگی نکھر آئی

فراق گورکھپوری
 
Top