غزل : دل چُھٹ کے ہم سے حسرتِ منزل میں رہ گیا - صفی لکھنوی

غزل
دل چُھٹ کے ہم سے حسرتِ منزل میں رہ گیا
تنہا غریب وادئِ مشکل میں رہ گیا

سوئے رقیب کس نے کیا قصدِ ناتمام
درد اُٹھتے اُٹھتے آج مرے دل میں رہ گیا

بندش سے حُسن غیر مقید کو واسطہ
دیوانہ دل پرستشِ منزل میں رہ گیا

خاطر نشینِ ہمّتِ اہلِ کرم ہوا
جو حرفِ مدّعا لبِ سائل میں رہ گیا

دیوانگانِ عشق رہے قید سخت میں
اتنے دنوں کے پاؤں سلاسل میں رہ گیا

پروانوں سے نہ شمع سے رونق ہمیں سے ہے
ہم اُٹھ گئے تو کیا تری محفل میں رہ گیا

کب اس نے ہاتھ ذبح سے کھینچا صفیؔ کہ جب
تھوڑا سا خون شہرگِ بسمل میں رہ گیا​
صفی لکھنوی
 
Top