محمد حفیظ الرحمٰن
محفلین
غزل
از: ظفر اقبال
دِل وہ بگڑاہوا بچہ ہے کہ جو مانگے گا
گر اُسی وقت نہ دیں گے تو مچل جائے گا
رات پھرآئے گی، پھر ذہن کے دروازے پر
کوئی مہندی میں رنگے ہاتھ سے دستک دے گا
دھوپ ہے ، سایہ نہیں آنکھ کے صحرا میں کہیں
دید کا قافلہ آیا تو کہاں ٹھہرے گا
وہ تو خوشبو ہے ، اُسے چوم سکو گے کیسے
مر بھی جاوتو یہ ارماں نہ کبھی نکلےگا
دیکھ کر شمعِ تمنا کی ضیاء آنکھوں میں
مُسکرائے گا، مگر بات نہیں مانے گا
آہٹ آتے ہی نگاہوں کو جُھکا لو ، کہ اُسے
دیکھ لو گے تو لپٹنے کو بھی جی چاہے گا
از: ظفر اقبال
دِل وہ بگڑاہوا بچہ ہے کہ جو مانگے گا
گر اُسی وقت نہ دیں گے تو مچل جائے گا
رات پھرآئے گی، پھر ذہن کے دروازے پر
کوئی مہندی میں رنگے ہاتھ سے دستک دے گا
دھوپ ہے ، سایہ نہیں آنکھ کے صحرا میں کہیں
دید کا قافلہ آیا تو کہاں ٹھہرے گا
وہ تو خوشبو ہے ، اُسے چوم سکو گے کیسے
مر بھی جاوتو یہ ارماں نہ کبھی نکلےگا
دیکھ کر شمعِ تمنا کی ضیاء آنکھوں میں
مُسکرائے گا، مگر بات نہیں مانے گا
آہٹ آتے ہی نگاہوں کو جُھکا لو ، کہ اُسے
دیکھ لو گے تو لپٹنے کو بھی جی چاہے گا
مدیر کی آخری تدوین: