غزل : دانتوں میں زبان لے رہا ہوں - بیدل حیدری

غزل
دانتوں میں زبان لے رہا ہوں
خود اپنا بیان لے رہا ہوں

غزلیں تو لکھوں گا پانیوں پر
دریا پہ مکان لے رہا ہوں

لفظوں کے کھلونے بیچنے ہیں
کاغذ کی دکان لے رہا ہوں

ظلمت کو شکستِ فاش دوں گا
سورج کا نشان لے رہا ہوں

برسوں سے مکاں نہیں ملا ہے
برسوں سے مکان لے رہا ہوں

سورج کا بٹھا کے ساتھ بیدلؔ
شبنم کا بیان لے رہا ہوں​
بیدل حیدری
 
Top