غزل : حسن کی لہر کراں تا بہ کراں ہوتی تھی - اختر عثمان

غزل
حسن کی لہر کراں تا بہ کراں ہوتی تھی
ایک جھلمل سی کہیں جی میں رواں ہوتی تھی

مجتمع کیسے ہوا کرتے تھے نور اور وفور
اور جب ساتھ کی مسجد میں اذاں ہوتی تھی

لب و رخسار کی تعظیم بجا لانے کو
روز مرّہ ہوا کرتا تھا زباں ہوتی تھی

آج شہرت ہے ترے پاس تو اِترا نہیں دوست
اک زمانے میں یہ کسبی مرے ہاں ہوتی تھی

اب تو جھیلا ہی نہیں جاتا سبک پن اپنا
اولِ عشق میں زنجیر گراں ہوتی تھی

جان کاوی سے غزل ہوتی تھی اخترؔ عثمان
خون جلتا تھا مگر شعر میں جاں ہوتی تھی
اختر عثمان
 
Top