غزل : جدائیوں کا اگر جی سے ڈر چلا جاتا - اختر عثمان

غزل
جدائیوں کا اگر جی سے ڈر چلا جاتا
میں اُس کے ساتھ یونہی عمر بھر چلا جاتا

شکن شکن جو مری روح میں بچھا ہے یہ درد
خدا نکردہ اِدھر سے اُدھر چلا جاتا

یہ زرد زرد ہیولے ، یہ مسخ مسخ نقوش
کہاں سنورتے جو آئینہ گر چلا جاتا

ملا جو ہوتا وہ گلگشت خواب کے دوران
روش روش زرِ گل کا ہنر چلا جاتا

سفال میں تو کسی خال کی چمک ہی نہ تھی
کہاں تک اور بھلا کوزہ گر چلا جاتا

میں ایک حُسن کی دہشت سے بت بنا ہوا ہوں
قدم تو پھر بھی نہ اُٹھتے ، اگر چلا جاتا
اختر عثمان
 
غزل
جدائیوں کا اگر جی سے ڈر چلا جاتا
میں اُس کے ساتھ یونہی عمر بھر چلا جاتا

شکن شکن جو مری روح میں بچھا ہے یہ درد
خدا نکردہ اِدھر سے اُدھر چلا جاتا

یہ زرد زرد ہیولے ، یہ مسخ مسخ نقوش
کہاں سنورتے جو آئینہ گر چلا جاتا

ملا جو ہوتا وہ گلگشت خواب کے دوران
روش روش زرِ گل کا ہنر چلا جاتا

سفال میں تو کسی خال کی چمک ہی نہ تھی
کہاں تک اور بھلا کوزہ گر چلا جاتا

میں ایک حُسن کی دہشت سے بت بنا ہوا ہوں
قدم تو پھر بھی نہ اُٹھتے ، اگر چلا جاتا
اختر عثمان
عمدہ شراکت۔
 
Top