ساحر غزل جب کبھی ان کی توجہ میں کمی پائ گیئ

جب کبھی ان کی توجہ میں کمی پائی گئی
از سر نو داستان شوق دہرائی گئی
بک گئے جب تیرے لب پھر تجھ کو کیا شکوہ اگر
زندگی بادہ و ساغر سے بہلائی گئی
اے غمِ دنیا تجھے کیا علم تیرے واسطے
کن بہانوں سے طبیعت راہ پہ لائی گئی
ہم کریں ترکِ وفا اچھا چلو یوں ہی سہی
اور اگر ترکِ وفا سے بھی نہ رسوائی گئی
کیسے کیسے چشم و عارض گردِ غم سے بجھ گئے
کیسے کیسے پیکروں کی شانِ زیبائی گئی
دل کی دھڑکن میں توازن آ چلا ہے خیر ہو
میرے نظریں بجھ گئیں یا تیری رعنائی گئی
 
Top