غزل : تغیر دہر کا فطری ہے لیکن ناگہاں کیوں ہو - علامہ رشید ترابیؔ

غزل
تغیر دہر کا فطری ہے لیکن ناگہاں کیوں ہو
بہاروں پر خزاں آئے ، بہاروں میں خزاں کیوں ہو

جلا ڈالا نشیمن باغباں نے اس بہانے سے
کہ اس سُوکھی ہوئی ڈالی پہ تیرا آشیاں کیوں ہو

نیا قصہ ہے اے کاتب نیا عنوان قائم کر
شریکِ داستانِ غیر میری داستاں کیوں ہو

گھر اپنا ڈھونڈ لیتا ہے فضا میں ٹوٹتا تارا
ملے کا اک نہ اک دامن یہ آںسو رائیگاں کیوں ہو

مری غمخواریاں ممکن نہیں اس سے تو ہٹ جائے
مرے سر پر تماشا کرنے والا آسماں کیوں ہو

وہ طائر جس میں بھی کچھ جراتِ پرواز باقی ہے
گرفتارِ قفس کیوں ہو اسیرِ آشیاں کیوں ہو

نشیمن جل چکا میں برق کا مرہونِ منت ہوں
فضائے لامکاں میری ہے اب فکرِ مکاں کیوں ہو

وہی اعلانِ حق کرتا ہے جو پیچھے نہیں ہٹتا
اقامت جن سے ناممکن اُنہیں فکرِ اذاں کیوں ہو

اگر نیت محبت ہے تو کیا امکان غفلت کا
ترابیؔ پھر سرِ محشر حسابِ دوستاں کیوں ہو
علامہ رشید ترابیؔ
 
Top