غزل: بے سبب اپنی آنکھوں کو ۔۔۔۔

یارانِ انجمن، آداب

ایک غزل آپ حضرات کی بصارتوں کی نذر ... امید ہے کہ آپ اپنی آراء اور تجاویز سے ضرور نوازیں گے.

دعا گو

راحلؔ
----------------------------------------------

بے سبب اپنی آنکھوں کو نم کیا کریں
!جو ملا ہی نہیں، اس کا غم کیا کریں

اس جہانِ عداوت کے عفریت پر
اپنے ژولیدہ شعروں کا دم کیا کریں

!کون سا کوئی پڑھنے کو بیتاب ہے
داستاں کو سپردِ قلم کیا کریں

اس قدر آزمایا گیاہے مجھے
ہیں پریشان وہ، اب ستم کیا کریں؟

برف پگھلے گی بس حدتِ لمس سے
!ایسے پھیکے تبسم کا ہم کیا کریں

تو کہ راحلؔ بس اک ذرہ خورد ہے
!تیری خاطر وہ زلفوں میں خم کیا کریں
 

الف عین

لائبریرین
اچھی غزل ہے ماشاء اللہ، محفل میں خوش آمدید۔ اپنا تعارف کرائیں اگر نہیں کرایا ہے اب تک تو۔
آخری شعر سمجھ میں نہیں آ سکا۔
 
جناب الف عین صاحب، آداب!

غزل پسند فرمانے کے لئے آپ کا ممنون و متشکر ہوں. تعارف مختصراً یہ ہے کہ فدوی کا نام احسن ہے اور راحلؔ تخلص کرتا ہے. تعلق پاکستان کے عروس البلاد کراچی سے ہے اور پیشے کے اعتبار سے بندہ کیمیکل انجینئر ہے. مادر علمی جامعہ کراچی ہے جہاں سے فارغ التحصیل ہوئے اب تقریباً 10 سال ہونے کو ہیں. شعر و شاعری کا شوق 12-13 سال کی عمر سے ہے، اور کم و بیش اسی عمر سے مشق سخن جاری ہے.

آخری شعر کے مفہوم کی بابت آپ نے دریافت فرمایا ہے. میری دانست میں تو شعر کا مفہوم سادہ سا ہے. شاعر محبوب کی نظر میں اپنے ہیچ و حقیر ہونے کا ذکر کر رہا ہے اور اپنی اسی حیثیت کو محبوب کی بے اعتنائی کا سبب قرار دے رہا ہے. اسی لئے خود کو ذرہِ خورد سے تشبیہ دی ہے.

ایک مرتبہ پھر داد و پذیرائی کے لئے شکر گزار ہوں. امید ہے آئندہ بھی شرفِ تخاطب حاصل رہے گا.

دعا گو،

راحلؔ
 
Top