غزل --- (بھوک بڑھ جاتی ہو جس کی پیٹ بھر جانے کے بعد)

مل گئی ہے روکھی سوکھی اتنا ترسانے کے بعد
حق ملا ہے مجھ کو میرا بھاری نذرانے کے بعد
کون سی مخلوق ہے دنیا میں انساں کے بغیر
بھوک بڑھ جاتی ہو جس کی پیٹ بھر جانے کے بعد
عام لوگوں میں کرے جو آنے والے کل کی بات
اس کی ہو پہچان دنیا سے گذر جانے کے بعد
چین پانے کے لیے جائے کہاں وہ نامراد
اور بھی بے چین ہو جائے جو گھر آنے کے بعد
میٹھے سُر میں گاتی دلکش لڑکی تھی پردے کے پار
ہو گئی نظروں سے اوجھل پردہ سرکانے کے بعد
جب کیا تھا پیار کا اظہار تم سے ناز نین
جھک گئیں پلکیں تھیں تیری تھوڑا شرمانے کے بعد
چل بسا خورشید تیرے ظلم کو سہتے حضور
کیا ہوا تائب ہوا تُو اس کے مر جانے کے بعد
 
مل گئی ہے روکھی سوکھی اتنا ترسانے کے بعد
حق ملا ہے مجھ کو میرا بھاری نذرانے کے بعد
جو مضمون آپ بیان کرنا چاہ رہے ہیں، اس کے درست ابلاغ کے لیے پہلے مصرعے میں ’’ترسائے جانے کے بعد‘‘ کہنا پڑے گا، یا ترسنے کے بعد ۔۔۔

کون سی مخلوق ہے دنیا میں انساں کے بغیر
بھوک بڑھ جاتی ہو جس کی پیٹ بھر جانے کے بعد
پہلے مصرعے میں بغیر کو بجز کر دیں تو زیادہ مناسب رہے گا۔
اگرچہ دوسرے مصرعے میں ’’اور‘‘ یا ’’مزید‘‘ وغیرہ کی کمی مجھے کچھ کھل رہی ہے۔

عام لوگوں میں کرے جو آنے والے کل کی بات
اس کی ہو پہچان دنیا سے گذر جانے کے بعد
مطلب صاف نہیں ۔۔۔ دوسرے مصرعے میں ہوگی ہونا چاہیے گرامر کے حساب سے۔

میٹھے سُر میں گاتی دلکش لڑکی تھی پردے کے پار
ہو گئی نظروں سے اوجھل پردہ سرکانے کے بعد
گاتی اور لڑکی دونوں میں ی ساقط ہو رہی ہے جس کی وجہ سے مصرعے کی روانی مخدوش ہو گئی ہے۔ بیان بھی کچھ خاص نہیں لگا ۔۔۔

جب کیا تھا پیار کا اظہار تم سے ناز نین
جھک گئیں پلکیں تھیں تیری تھوڑا شرمانے کے بعد
ایک تو شترگربہ ہے ۔۔۔ یعنی ایک مصرعے میں تم کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے، دوسرے میں تُو کا ۔۔۔ جو درست نہیں ۔۔۔ ایک شعر میں صیغۂ خطاب ایک ہی رکھنا ضروری ہوتا ہے۔
دوسرے مصرعے میں الفاظ کی نشست غیر ضروری طور پر خلاف فطرت ہے ۔۔۔ جھک گئیں تھیں تیری پلکیں ۔۔۔ کہنے میں کیا حرج ہے؟ اس طرح تھیں تیری کا تنافر بھی دور ہو جائے گا تو تھیں کی ی کے اسقاط کی وجہ سے پیدا ہو رہا ہے۔
پہلے مصرعے میں نازنین بھرتی کا لفاظ ہے ۔۔۔ دوسرے مصرعے معنوی سقم یہ ہے کہ پلکیں شرم سے ہی جھکتی ہیں ۔۔۔ شرمانے کے بعد جھکنا مہمل سی بات ہے ۔۔۔

چل بسا خورشید تیرے ظلم کو سہتے حضور
کیا ہوا تائب ہوا تُو اس کے مر جانے کے بعد
حضور بھرتی کا لفظ ہے ۔۔۔ سیدھا سیدھا سہتے ہوئے کہہ لیں
دوسرے مصرعے میں بات بن نہیں رہی ۔۔۔ کچھ اس طرح سوچا جا سکتا ہے۔
چل بسا خورشیدؔ تُو جس کے ستم سہتے ہوئے
حیف! وہ تائب ہوا ہے تیرے مر جانے کے بعد
 
جب کیا تھا پیار کا اظہار تم سے ناز نین
جھک گئیں پلکیں تھیں تیری تھوڑا شرمانے کے بعد

بہت شکریہ محترم ( استاد کہنے سے آپ نے منع کردیا ہے)
آپ لوگوں سے بہت کچھ سیکھنے کو مل رہا ہے اس کے لیے آپ کے اور اردو محفل کے شکر گذار ہیں

سر سچ یہ ہے کہ شاعری میں نے صرف خیال اور قافیہ ملانے سے شروع کی تھی باقی لوازمات کا پتا نہیں تھا لیکن آپ لوگوں کی مہربانی سے آہستہ آہستہ شاعری کی تکنیکی باریکیوں سے واقفیت ہورہی ہے
میں نے کوشش کی ہے اس شعر سے شترگربہ اور ت کا تنافر ختم کرنے کی اگرچہ شاید اب تھی کم ہو گیا ہے- کیا یہ درست ہے

جب کیا تھا پیار کا اظہار تم سے ناز نین
جھک گئیں پلکیں تمہاری تھوڑا شرمانے کے بعد
 
آخری تدوین:
Top