غزل براہ اصلاح

سر الف عین

فاعلاتن مفاعلن فعلن

بولنے میں ترا جواب نہیں
پر ، ترا کھیل کامیاب نہیں

اپنے ان جھوٹ کے پلندوں میں
ایسے سچائی کو تو داب نہیں

پہلے تعبیر پچھلے خوابوں کی
حکمرانو! اب اور خواب نہیں

فاقہ کش بن گئے ہیں ، محنت کش
یاں کوئی چیز دستیاب نہیں

کیا تمہیں پیار چاہیے ، ہم دیں
ہم سے بولے '' نہیں جناب نہیں "

زندگی سے فرار اب کیوں یار
ان مسائل کا حل شراب نہیں

پیار اس کا بناوٹی ہے ، وہ
کاغذی پھول ہے گلاب نہیں

موت کو مت گلے لگا عمران
زندگی اتنی بھی خراب نہیں

شکریہ
 
بہت دن کے بعد آنا ہوا عمرانؔ بھائی، امید ہے کہ آپ کے وہاں سب خیریت رہی ہوگی۔

اپنے ان جھوٹ کے پلندوں میں
ایسے سچائی کو تو داب نہیں
داب بطور صیغۂ امر، میرے خیال میں اردو میں مستعمل نہیں۔

پہلے تعبیر پچھلے خوابوں کی
حکمرانو! اب اور خواب نہیں
بحر کی تنگی کی مجبوری اپنی جگہ، مگر شعر بہت زیادہ تشنہ الفاظ لگتا ہے۔ یعنی مفہوم کے ابلاغ کے لیے قاری کو اپنی طرف سے بہت سے الفاظ فرض کرنا پڑیں گے۔

کیا تمہیں پیار چاہیے ، ہم دیں
ہم سے بولے '' نہیں جناب نہیں "
دونوں مصرعوں میں ضمیر الگ الگ ہے۔ پہلے میں ضمیر حاضر کا استعمال کیا گیا ہے، جبکہ دوسرے میں ضمیر غائب کا۔ دنوں میں ضمیر ایک ہی رکھیں۔

زندگی سے فرار اب کیوں یار
ان مسائل کا حل شراب نہیں
یار بھرتی کا لگتا ہے، اس کی جگہ کوئی اور لفظ لے آئیں۔

دعاگو،
راحلؔ
 
بہت دن کے بعد آنا ہوا عمرانؔ بھائی، امید ہے کہ آپ کے وہاں سب خیریت رہی ہوگی۔


داب بطور صیغۂ امر، میرے خیال میں اردو میں مستعمل نہیں۔


بحر کی تنگی کی مجبوری اپنی جگہ، مگر شعر بہت زیادہ تشنہ الفاظ لگتا ہے۔ یعنی مفہوم کے ابلاغ کے لیے قاری کو اپنی طرف سے بہت سے الفاظ فرض کرنا پڑیں گے۔


دونوں مصرعوں میں ضمیر الگ الگ ہے۔ پہلے میں ضمیر حاضر کا استعمال کیا گیا ہے، جبکہ دوسرے میں ضمیر غائب کا۔ دنوں میں ضمیر ایک ہی رکھیں۔


یار بھرتی کا لگتا ہے، اس کی جگہ کوئی اور لفظ لے آئیں۔

دعاگو،
راحلؔ
بہت شکریہ برادر۔۔۔ بس کچھ حالات ناساز تھے ، ایسے حالات میں شعر کہنا کی طرف ذہن مائل نہیں تھا۔ ہم الحمدللہ کچھ بہتری آ رہی ہے۔۔۔

آپ کے مشورے کے مطابق کچھ تبدیلی کی ہے۔۔۔

ان سے پوچھا کہ پیار دیں تم کو
ہم سے بولے '' نہیں جناب نہیں "

زندگی سے فرار آخر کیوں
ان مسائل کا حل شراب نہیں
 
Top