غزل برائے تنقید -----

مانی عباسی

محفلین

ہو باعث کچھ بھی اس بے آبرو کا ذکر مت کیجے
بہ اندازِ شکایت بھی عدو کا ذکر مت کیجے

ہماری شاعری سن کر لگے وہ ڈانٹنے ہم کو
"یوں اپنے بِیچ کی اس گفتگو کا ذکر مت کیجے"

بنی ہے یار کی آنکھیں سفیرِ بادہ و ساغر
ہمارے آگے اب جام و سبو کا ذکر مت کیجے

ہوا ہے گر شبابِ گل فنا تو کیوں ہے حیرانی
کہا تھا ہم نے رکیے ان کے رو کا ذکر مت کیجے

نہیں ہے خاک بھی مانی تَیَمُّم کو مُیَسَّر جب
لہو رو دیں گے ہم شرطِ وضو کا ذکر مت کیجے
 
سارے شعر عمدہ ہیں۔ اس کو ذرا پھر سے دیکھ لیجئے گا:
ہوا ہے گر شبابِ گل فنا تو کیوں ہے حیرانی
کہا تھا ہم نے رکیے ان کے رو کا ذکر مت کیجے
۔۔۔۔
 

مانی عباسی

محفلین
سارے شعر عمدہ ہیں۔ اس کو ذرا پھر سے دیکھ لیجئے گا:
ہوا ہے گر شبابِ گل فنا تو کیوں ہے حیرانی
کہا تھا ہم نے رکیے ان کے رو کا ذکر مت کیجے
۔۔۔ ۔
کس لحاظ سے دوبارہ دیکھ لوں ۔۔۔۔؟؟؟ کمی کی نشاندہی کر دیں تو آسانی ہو گی.۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
رکنے کو کہنے سے تو پھول کا شباب فنا نہیں ہونا چاہئے۔ وہ نہیں رکنا چاہتا یا اسے یہ بات اچھی نہیں لگی تو وہ کیفیت کچھ اور ہو گی، فنا شاید مناسب نہ ہو۔
ممکن ہے میں شعر کے مفہوم کو نہ پا سکا ہوں۔ اس لئے کہا تھا کہ خود ہی دیکھ لیجئے۔ ضروری نہیں ہوتا کہ اگر شعر میں کوئی کمی ہو تبھی اس پر نظرثانی کی جائے گی۔
 


بنی ہے یار کی آنکھیں سفیرِ بادہ و ساغر
ہمارے آگے اب جام و سبو کا ذکر مت کیجے


کیا اس شعر کو یوں کیا جاسکتا ہے؟
بنی ہیں یار کی آنکھیں سفیرِ بادہ و ساغر
ہمارے سامنے جام و سبو کا ذکر مت کیجے​
 
Top