غزل برائے تنقیدی جائزہ

غزل
وعدہ کر کے بدل گیا کیوں ہے
اتنا مجبور تو ہوا کیوں ہے
نام لینا ترا ہوا مشکل
عشق میں ہر قدم سزا کیوں ہے
سرفروشی کےشوق کا حاصل
جب تھا معلوم پھر گلا کیوں ہے
جب کہ تم ہی نہیں رہے اپنے
دل یہ جانے دھڑک رہا کیوں ہے
بےوفا تم نہ بدگماں ہم ہیں
پھر یہ ان مٹ سا فاصلہ کیوں ہے
ایک پتھر سے چوٹ کھانے پر
دردِ دل مستقل رہا کیوں ہے
تجھ کو ظالم مری اداسی کا
آج احساس بھی ہوا کیوں ہے
جس نے صدمے دئے ہزاروں کو
خود کو سمجھے وہی خدا کیوں ہے
یاد اِجلؔال آ رہا ہے کوئی
پھر وہ قاتل ہی دل ربا کیوں ہے
(سید اجلؔال حسین - ۱۱ فروری، ۲۰۱۳ ؁ )
 

الف عین

لائبریرین
بےوفا تم نہ بدگماں ہم ہیں​
پھر یہ ان مٹ سا فاصلہ کیوں ہے​
÷÷ان مٹ اچھا نہیں لگ رہا، کیا اسے ’انجانا‘ کیا جا سکتا ہے، غور کریں۔​
ایک پتھر سے چوٹ کھانے پر​
دردِ دل مستقل رہا کیوں ہے​
÷÷پتھر کیا دل تک پہنچ گیا، پسلیوں کو چھوڑ کر؟؟ مانا کہ پتھر علامت ہے، لیکن اس کو کچھ اور واضح کرنے کی ضرورت ہے۔​
جس نے صدمے دئے ہزاروں کو​
خود کو سمجھے وہی خدا کیوں ہے​
÷÷بات سمجھ میں نہیں آ رہی۔ترسیل درست نہیں ہو رہی۔ میرا خیال ہے کہ مراد یہ ہے کہ وہ محبوب اپنے کو خدا کیوں سمجھتا ہے؟​
 
بےوفا تم نہ بدگماں ہم ہیں​
پھر یہ ان مٹ سا فاصلہ کیوں ہے​
÷÷ان مٹ اچھا نہیں لگ رہا، کیا اسے ’انجانا‘ کیا جا سکتا ہے، غور کریں۔​
ایک پتھر سے چوٹ کھانے پر​
دردِ دل مستقل رہا کیوں ہے​
÷÷پتھر کیا دل تک پہنچ گیا، پسلیوں کو چھوڑ کر؟؟ مانا کہ پتھر علامت ہے، لیکن اس کو کچھ اور واضح کرنے کی ضرورت ہے۔​
جس نے صدمے دئے ہزاروں کو​
خود کو سمجھے وہی خدا کیوں ہے​
÷÷بات سمجھ میں نہیں آ رہی۔ترسیل درست نہیں ہو رہی۔ میرا خیال ہے کہ مراد یہ ہے کہ وہ محبوب اپنے کو خدا کیوں سمجھتا ہے؟​
محترم اعجاز بھائی،

السلام علیکم!

ان مٹ کو نا قابلِ تسخیر کے طور پر استعمال کیا تھا۔ اور کوئی لفظ سمجھ نہیں آ رہا تھا۔ کیا یہاں صدیوں کا فاصلہ کر سکتے ہیں؟ اگر کر سکتے ہیں تو صدیوں کی تقطیع 2 2 ہو گی یا 1 1 2 ؟

"ایک پتھر سے چوٹ کھانے پر": یہاں محبوب کو پتھر سے تشبیہ دی گئی ہے، یعنی ایک سنگ دل نے چوٹ لگا دی تو کیا ہوا، ساری عمر کے لئے روگ کیوں لگ گیا ہے؟

محبوب سے ہزاروں کو صدمے دینے کی امید نہیں کی جاسکتی۔ یہ شعر ان جابر، ظالم لوگوں کے لئے ہے جو دنیا میں فساد برپا کرتے رہتے ہیں اور خدا بنے بیٹھے ہیں!

آپ کے مزید تبصرے کا منتظر رہوں گا۔ جواب جلدی میں لکھا ہے، غلطیوں کے لئے پیشگی معذرت!

بہت شکریہ۔ سلامت رہیں!
 
بےوفا تم نہ بدگماں ہم ہیں​
پھر یہ ان مٹ سا فاصلہ کیوں ہے​
÷÷ان مٹ اچھا نہیں لگ رہا، کیا اسے ’انجانا‘ کیا جا سکتا ہے، غور کریں۔​
ایک پتھر سے چوٹ کھانے پر​
دردِ دل مستقل رہا کیوں ہے​
÷÷پتھر کیا دل تک پہنچ گیا، پسلیوں کو چھوڑ کر؟؟ مانا کہ پتھر علامت ہے، لیکن اس کو کچھ اور واضح کرنے کی ضرورت ہے۔​
جس نے صدمے دئے ہزاروں کو​
خود کو سمجھے وہی خدا کیوں ہے​
÷÷بات سمجھ میں نہیں آ رہی۔ترسیل درست نہیں ہو رہی۔ میرا خیال ہے کہ مراد یہ ہے کہ وہ محبوب اپنے کو خدا کیوں سمجھتا ہے؟​

استادِ محترم الف عین بھائی،

اگر ایسے کر دیا جائے تو کیسا رہے گا؟

بے وفا تم نہ بدگماں ہم ہیں
پھر یہ دوری یہ فاصلہ کیوں ہے

"جس نے صدمے دئے ہزاروں۔۔" کو اگر ایسے کر کے قطعے کی شکل دینے کی کوشش کی جائے۔۔۔

چل پڑی ہے یہ کیسی خوں ریزی
بھائی کو بھائی مارتا کیوں ہے
--- ق ----
کر کے پامال سب ہی رشتوں کو
آج آدم بنا خدا کیوں ہے
لیکن مجھے نہیں پتا یہ قطعہ بن بھی رہا ہے کہ نہیں۔۔۔ آپ کیا فرماتے ہیں؟
بیحد شکر گزار ہوں کہ آپ اپنا قیمتی وقت نکال کر اصلاح فرماتے ہیں!
 

الف عین

لائبریرین
پہلا جواب : صدیوں 2 2 ہے میرے خیال میں، یعنی فعلن۔ صد یو۔
دوسرا: تبدیلیاں درست ہیں۔ پہلا شعر تو اچھا ہو گیا ہے۔ لیکن

چل پڑی ہے یہ کیسی خوں ریزی
بھائی کو بھائی مارتا کیوں ہے
--- ق ----
کر کے پامال سب ہی رشتوں کو
آج آدم بنا خدا کیوں ہے
اس میں قطعہ بند کی علامت پہلے شعر کے پہلے آنی چاہئے، درمیان میں نہیں۔ اس کے بعد مزید اشعار ہوں تو قطع کے بعد فصل دے دو، کمپیوٹنگ کی اصطلاح میں لائن بریک یا پیرا بریک۔
اب اس قطعہ پر بات۔۔
چل پڑی ہے۔۔۔ اچھا نہیں لگ رہا، کیا ’ہو رہی ہے‘ سے وہی بات ادا نہیں ہوتی؟
اور
کر کے پامال سب ہی رشتوں کو
کو
کر کے پامال سارے رشتوں کو
کر دیا جائے تو بہتر ہو۔
 
بہت شکریہ اعجاز بھائی!

پہلے میں نے یہی لکھا تھا، "کر کے پامال سارے رشتوں کو"۔۔۔ پھر تبدیل یہ سوچ کر تبدیل کر دیا تھا کہ 'ر' بار بار زبان سے ادا ہو رہا تھا، لیکن اب آپ نے پسند فرمایا ہے تو وہی بہتر ہے۔

سلامت رہیئے!
 
Top