غزل برائے اصلاح

محمل ابراہیم

لائبریرین
محترم اساتذہ الف عین
محمد احسن سمیع:راحل
محمد خلیل الرحمٰن
سید عاطف علی و دیگر اساتذہ کرام


آداب

آپ سے اصلاح و رہنمائی کی درخواست ہے_____


تخیل سے مرے وہ شمعِ نورانی نہیں جاتی
کہ عاشق زار پروانوں کی نادانی نہیں جاتی

بہت چاہا کہ چھٹکارا ملے مجھ کو تردد سے
مگر میں کیا کروں میری پریشانی نہیں جاتی

بہ کثرت آبرو ریزی کے قصے روز سنتی ہُوں
مگر پھر بھی یہ عالم ہے کہ حیرانی نہیں جاتی

ترے در پر جو آئی ہُوں تو مل کر تُجھ سے جاؤں گی
بلا دیدار،چوکھٹ سے یہ دیوانی نہیں جاتی

وضو کے بعد گل غنچے عبادت رب کی کرتے ہیں
اسی خاطر فلک کی شبنم افشانی نہیں جاتی

بڑی تیزی سے مغرب کے مقلد بنتے جاتے ہیں
خدایا اہلِ مشرق کی یہ نادانی نہیں جاتی

نہایا خونِ بے بس سے زمیں کا چپّہ چپّہ ہے
عجب محشر بپا ہے جاں کی ارزانی نہیں جاتی

سحؔر رنگینئ دنیا میں ڈوبا ابنِ آدم ہے
یہی تو ہے سبب کہ دل کی ویرانی نہیں جاتی
 
آخری تدوین:
Top